• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امارت و اشرافیہ کا کیا مطلب ہونا چاہئے ؟ ,,,,ایازا میر

”آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کی امارت و دولت نے آپ کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟“ اس کا جواب یہ ملا کہ ”میں ہر شخص کے بارے میں تو یہ دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن اچھے خاصے ایسے لوگ ہیں جنہیں امارت و دولت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر جان بوجھ کر یہاں تک کہ انجانے میں بھی کسی کو دھوکہ دینے یا کسی کے ساتھ فراڈ کرنے کا نہیں سوچتے اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اسے یہ غم یا خدشہ لاحق نہیں ہوتا کہ اس نے آسمانی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے قربانیاں نہیں دیں یا پھر اسے دنیا میں کسی شخص کا قرضہ چکانا ہے“۔
یہ اقتباس افلاطون کی معروف عالم کتاب ”دی ری پبلک “ سے لیا گیا ہے لیکن جب ہم مندرجہ بالا اقتباس کااپنے دور کے ساتھ تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا عام مشاہدہ اور تجربہ کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ انتہائی امیر افراد اپنی امارت و دولت پر مطمئن ہونے کی بجائے مستقل طور پر اس اذیت میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ کس طرح اپنی دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے۔بہرحال یہ تو ایک خیال دیگر ہے۔ ہم”دی ری پبلک“ سے لئے گئے مندرجہ بالا اقتباس کی طرف روئے سخن موڑتے ہیں جس میں سقراط Cephalus سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی دولت و امارت انہیں ترکے میں ملی ہے یا پھر انہوں نے اس مال و متاع کو اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے؟ اس کے جواب میں Cephalus فرماتے ہیں کہ ان کو جائیداد اور مال و متاع ورثے میں ملا ہے۔ اس کے بعد سقراط دوسرا سوال کرتے ہیں کہ اس مال و متاع کا کیا فائدہ ہے ، اس سوال کا جواب ہم اوپر درج کر چکے ہیں۔ Cephalusکے خیال میں موروثی جائیداد کا کافی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم خود کو فراڈ اور دیگر متعلقہ برائیوں سے بچا سکیں اور اسی مال و متاع کی وجہ سے ہم اس پوزیشن پر چلے جاتے ہیں جہاں ہمیں ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے کیونکہ ہم کسی کے مقروض نہیں ہوتے ۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب ہمارے ہاں سیاسی طبقے سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سیاست میں موجود رہنے کے لئے اپنی موروثی جائیدادیں تک فروخت کر دیا کرتی تھیں لیکن آج کیا عجب دور آگیا ہے کہ سیاست کو پیسہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ گردانا جاتا ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں سیاست میں آنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اور جہاں کوئی سیاسی عہدہ حاصل ہو جانے پر اس عہدے کو مزید دولت کمانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہو، وہاں اخلاقی اقدار کے معیار اگر تیزی سے روبہ زوال ہوں تو پھر اس پر حیرت چہ معنی دارد۔ اور بدقسمتی سے یہ معاملات اب صرف سیاسی طبقے تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اس بہتی گنگا میں ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اشنان میں مصروف ہے۔ ہل من مزید کے نعرے پر لبیک کہنے والا کلچر انتظامیہ میں سرائیت کر چکا ہے اور ہمیں بڑے بڑے ”ہڑپ خور“سول انتظامیہ کے علاوہ یونیفارم میں بھی نظر آتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے لوگ صرف لینا جانتے ہیں دینا نہیں یقینا غریب غرباء کے حوالے سے خاصی سخاوت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور مہمان نوازی بھی دکھاتے ہیں لیکن جہاں تک طبقہ امراء یا اشرافیہ کا سوال ہے تو یہ دعویٰ درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔وہ اصحاب جو سخاوت دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، وہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ جود و سخا کا مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ لوگ جن پر قسمت مہربان ہوتی ہے، بدقسمتی سے وہی لوگ خود غرض، دھوکہ باز اور فراڈ ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کے ہاں عوامی خدمت کا تصور عمومی طور پر مفقود ہے۔
یہ خیال خاصا غم انگیز ہے اور اس کی وجہ سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی کی رحلت ہے۔ ایڈورڈ کینیڈی کا تعلق ایک امیر خاندان سے تھا جس نے اپنی دولت اور طاقت اس وقت حاصل کی جب جان ایف کینیڈی امریکہ کے صدر بنے تھے (اس خاندان کے جد امجد Joe Kennedyتھے، جنہوں نے شراب کی فروخت سے اس وقت دولت کمائی جب امریکہ میں شراب پر پابندی لگا دی گئی تھی)۔ جہاں تک کینیڈی خاندان کے دو افراد Johnاور Robertکا تعلق تھا وہ ایڈورڈ کینیڈی کے مقابلے میں خاصی صلاحیتوں سے مالا مال تھے لیکن دونوں صاحبان کی بدقسمتی یہ ٹھہری کہ انہیں قتل کیا گیا لیکن واضح رہے کہ جب ایڈورڈ کینیڈی سینیٹ کیلئے منتخب ہو گئے تو پھر ان کی شخصیت کے چھپے پہلو کھل کر سامنے آئے ، یہاں تک کہ ان کی رحلت پر انہیں صدی کا سب سے زیادہ بااثر سینیٹر تسلیم کیا گیا۔
ایڈورڈ کینیڈی کو اپنی زندگی میں مختلف قسم کے ذاتی سانحوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ 1969ء میں ان کی دوست Mary Jo Kopechneدریا میں ڈوب گئی اور اس کے ساتھ ہی ان کے صدر بننے کی تمام امیدیں بھی دم توڑ گئیں لیکن انہوں نے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد اپنی تمام توجہ سیاست پر مرکوز کر دی اور ہمیشہ لبرل نظریات کا پرچار کیا اور کم مراعات یافتہ طبقے کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ وہ سینیٹ میں اس محدود اقلیت کا حصہ تھے جس نے عراق کے خلاف امریکی لشکر کشی کی مخالفت کی تھی۔اس موقع پر سینیٹر Robert Byrdنے جو تقریر کی تھی وہ ہمارے خیال میں ایک بہترین تقریر تھی ( ہم جس وقت یہ سطور تحریر کر رہے تھے تو انٹرنیٹ کے ذریعے یوٹیوب پر اس تقریر کے کچھ حصے بھی دیکھے اور سنے جو یقینا سوچ کی دعوت دے رہے تھے)لیکن Ted Kennedyبھی عراقی جنگ کے خلاف تھے کیونکہ اس بیوقوفی کے نتائج امریکی قوم کو اچھے خاصے وقت تک بھگتنے ہیں لیکن کیا مقام حیرت ہے کہ یہی سینیٹر صاحب ایک زمانے میں بارک اوبامہ کے حمایتی تھے، یہ بارک اوبامہ کے اولین دور کا قصہ ہے۔Ted Kennedyانتہائی کٹر مے نوش تھے اور اس میں شاید زیادہ عمل دخل ان کے آئرش ہونے کا تھا کیونکہ آئرش اپنی مے نوشی کے لئے خاصے بدنام ہیں۔ ان کے خاندان کو یکے بعد دیگرے کئی حادثات اور سانحوں کا سامنا کرنا پڑا، سو انہوں نے مے نوشی میں پناہ ڈھونڈی تاکہ اپنے غموں کو بھلا سکیں اور ان کا ماتم کر سکیں ۔ وہ چاہتے تو مے نوشی میں اپنے آپ کو پوری طرح ڈبو دیتے (جیسا کہ ان کی اہلیہ نے کیا) ، وہ چاہتے تو ایک پلے بوائے کا کیریئر اپنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو عوامی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور اپنے ذاتی مسائل و مشکلات کو انہوں نے خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ یقینا ماضی میں امریکہ میں چور لٹیروں کی کوئی کمی نہیں رہی اور اب کارپوریٹ امریکہ میں بھی لالچی و خودغرض لوگوں کی اچھی خاصی بھرمار ہے لیکن کسی بھی سلطنت کی عظمت صرف لالچ کی بنیاد پر نہیں رکھی جا سکتی،امریکہ کی رنگا رنگی اور بوقلمونی میں اور بھی کچھ عوامل ہیں۔اب روئے سخن پھر موڑتے ہیں افلاطون کے مکالمے کی طرف ۔ ہمیں اس مکالمے کی طرف نہ صرف یہ کہ کینیڈی کی رحلت نے متوجہ کیا بلکہ جسونت سنگھ کی کتاب "Jinnah and Partition"کی وجہ سے بھی یہ مکالمہ ہمارے ذہن میں بار بار گونجتا رہا۔ یہ کتاب ابھی ہمارے مطالعے میں نہیں آئی لیکن کوشش ہے کہ جلد اس کا مطالعہ کر سکیں۔ اس کتاب کے حوالے سے بھارت میں اچھا خاصا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور جسونت سنگھ جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار تھے، انہیں اپنے پارٹی عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے لیکن ہمارے لئے زیادہ باعث حیرت بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی گوناگوں سیاسی مصروفیات کے باوجود اس قدر وقت نکال لیا کہ ریسرچ کر سکیں اور کتاب لکھ سکیں۔ہمارے خیال میں سیاستدانوں کو صرف سیاست کا چولہ اوڑھنے کی بجائے پڑھنے لکھنے اور کتاب خوانی کا شغف بھی ہونا چاہئے۔ ”ویژن“ یا زاویہٴ نگاہ وہ شے ہے جو سیاست کو زندگی سے جوڑتی ہے اور ویژن ، شاعری اور ادب کے مطالعے سے ہی وسیع ہوتا ہے۔ اگر سیاستدان عمومی سطح سے اوپر اٹھنا چاہتے ہیں تو انہیں اعلیٰ ترین آئیڈیلز کی جستجو کرنی ہوگی۔دوسری طرف ہمارے عوام کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سیاست کو ایک مخصوص طبقے کی جاگیر نہ سمجھے ، سیاست میں ہر کوئی آ سکتا ہے۔Periclesنے ایتھنز کے حوالے سے کہا تھا کہ ”وہ شخص جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا ، ضروری نہیں کہ وہ شخص صرف اپنے کام سے کام رکھنے والا ہو بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ ان کا ایتھنز میں کوئی کام نہیں۔“
Plutarchکا کہنا ہے کہ الیگزینڈر Iliadنامی کتاب ہمیشہ اپنے سرہانے رکھتا تھا، سیزر نے اس وقت بھی اپنی کتاب Commentariesلکھنا جاری رکھی جب وہ روم کے خلاف مہمات میں مصروف تھا۔نپولین جب یورپ کے دورے پر تھا تو دوران سفر ہی تیزی سے کتابیں پڑھتا جاتا اور پڑھی ہوئی کتابیں باہر گراتا جاتا، اسٹالن راتوں کو اٹھ اٹھ کر کتابیں پڑھتا جبکہ اس کی فوج ہٹلر کی فوج کے ساتھ لڑ رہی ہوتی تھی۔ سو دیکھ لیں کہ معروف ہستیاں کیسے اور کیونکر حالت امن و جنگ میں کتاب سے ناتا نہیں توڑتیں۔سو ہم اسی لئے جسونت سنگھ کی کتاب کو سراہ رہے ہیں ، اس لئے نہیں کہ وہ کتاب میں کیا کہتے اور لکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ایک سیاستدان ہونے کا فرض نبھایا ہے۔ ایک سیاستدان اگر سچا ہے تو اسے علم و ادب کی پرورش و نگہبانی کرنی چاہئے۔
تازہ ترین