• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں کہنے کو چنگی بھلی نصف درجن سے زائد سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں موجود ہیں لیکن اس قدر قحط الرجال ہے کہ گویا یہاں قیادت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ رہ گئیں سیاسی پارٹیاں تو ان کا حال شخصیات سے بھی برُا ہے کیونکہ ہماری تمام تر سیاست پارٹیوں کو مضبوط اور منظم کرنے کی بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں صورتِ حال یہ ہے کہ جو پارٹی بڑے طمطراق اور تبدیلی کے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وارد ہوئی تھی اس کی پتلی حالت کا اندازہ اس کے حالیہ پارٹی الیکشن سے لگایا جا سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلے کا نشان بچانے کے لیے الیکشن کے نام پر محض ڈرامہ رچایا گیا ہے جس کی حیثیت ضیاء الحق یا پرویز مشرف کے ریفرنڈم سے زیادہ نہیں ہے۔ آسان ترین ووٹنگ سسٹم کے باوجود محض دس فیصد کاسٹ اور وہ بھی اس طرح کہ ایک طرف وہ شخص جس کی اپنی ذات ہی PTIبنی ہوئی ہے اُسے ووٹ دینے کا مطلب تمام کے تمام معیاری و غیر معیاری افراد کو ووٹ دینا قرار پایا۔ اس کے بعد دوسرے فریق کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اس کے معنی تو ویسے ہی ہیں جیسے ضیاء الحق کو ووٹ دینے کا یہ مطلب لیا گیا کہ آپ نے اسلامائزیشن کو ووٹ دے دیا ہے۔ یہ تو حال ہے اس پارٹی کا جو نیا پاکستان تشکیل دینے کا نعرہ لگا کر میدان میں آئی ہے۔ اس کے بعد دیگر پارٹیوں کے جائزے کا کیا جواز بنتا ہے جنہیں اسٹیٹس کو کی پارٹیاں قرار دیا جاتا ہے۔ رہ گئیں ان کی قیادتیں تو ان کا حال بھی سوائے وزیراعظم نواز شریف کے بہت پتلا ہے۔
مسلم لیگ ن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی قرار دیا جاتا ہے جس کی نہ صرف سینیٹ میں اکثریت ہے بلکہ قومی اسمبلی میں بھی قائدِ حزبِ اختلاف اسی پارٹی کے نمائندے ہیں۔ پیپلز پارٹی اگرچہ چار مرتبہ برسر اقتدار رہی ہے لیکن ان دنوں نامساعد حالات سے گزر رہی ہے بالخصوص پنجاب میں اس قومی پارٹی کا جس بے دردی سے صفایا ہوا ہے یہ ایک ایسا پوائنٹ تھا جس پر پوری پارٹی کو سر جوڑ کر غور و فکر کرنا چاہئے تھا۔ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کا بہتر لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے تھا مگر قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ کارواں کے دل میں گویا احساس زیاں تک نہیں ہے۔ وہی جذباتی، بے تکی و بے ہنگم نعرے بازی اور الزام تراشی کا کلچر ہے۔ جو خوراک بیماری کا باعث بنی تھی اُسی کو بطور دوا استعمال کرنے پر زور جاری و ساری ہے البتہ صحت یابی کے لیے دعائیں اور تمنائیں بہت کی جا رہی ہیں۔ پرانی قیادت کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈوبتی ناؤ ملاحظہ کرتے ہوئے بھی کنارے پر بیٹھی اپنی حکمت و دانش بزور منوانا چاہ رہی ہے جبکہ نئی قیادت قطعی لاابالی غیر سنجیدہ اور ناتجربہ کار ہے جس کے اتالیق اُسے جدھر چاہتے ہیں بھگائے لیے پھرتے ہیں اور اپنے تئیں فرحاں و شاداں ہیں کہ نئی قیادت پر ہمارا بڑ ا اثر رسوخ ہے ان کی نظر میں یہی کامیابی کا زینہ ہے حالانکہ اُن کے پاس عوامی سطح پر جب بے نظیر کا ایک خزینہ تھا جسے وہ استعمال میں لا سکتے تھے اور بلاول کو کم ازکم ایک باری تو دلا سکتے تھے لیکن ان کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ دور بے نظیر کی متانت اور سنجیدگی کا ہے۔ ان سطح بینوں سے یہ فیصلہ ہی نہیں ہو رہا کہ ہر دو سابق قائدین میں سے کس کے کردار کو اپنانا ہے یا کونسی نئی راہیں تراشنا ہیں لہٰذا بالفعل وہیں کے وہیں پڑے رینگ رہے ہیں یا مکھن کا ذوق لیے پانی میں مدھانی پر طبع آزمائی فرما رہے ہیں لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ آنے والے الیکشن میں کوئی ایسا معجزہ ہو جائے گا جس سے ان کی لاٹری نکل آئے گی۔
تیسری پارٹی جس کے اندرونی انتخابات کا ابھی ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس کی قیادت بھی بڑی حد تک اپنی سیاسی حیثیت میں ناتجربہ کار ہے۔ اس پارٹی کو اگرچہ ایک صوبے میں ANP کی کوتاہی یا نواز شریف کی مہربانی سے حکومت مل گئی تھی مگر انہوں نے اس میں کوئی کرشمہ دکھانے یا اعلیٰ کارکردگی سے اپنا آپ منوانے کی بجائے سارا زور پروپیگنڈہ مشینری پر صرف کر دیا ہے اور غیر جانبدارانہ شہرت محض ایک کٹھ پتلی کی کمائی ہے ان کی پہچان ربع صدی بعد بھی کھلاڑی اور سیاست کے اناڑی کی ہے ایسے میں قوم مزید توقعات کیا رکھ سکتی ہے۔ البتہ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ خفیہ انگلیوں کے اشاروں سے اقتدار انہیں طشتری میں رکھ کر اس طرح پیش کر دیا جائے کہ عوام انہیں جیتنے والی پارٹی خیال کرنے لگیں۔ اسی رواروی میں پی پی کے مایوس پرندے ان کی منڈیر پر بیٹھتے چلے جائیں اس سب کے باوجود ان کیلئے بہتری کی ایک ہی صورت یہ ہے کہ ن لیگ دو پھانگ ہو جائے۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے یہ اگرچہ ابتداءً اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تھی مگر یہ اعزاز بہرحال نواز شریف کو جاتا ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اس کا کانٹا تبدیل کرتے ہوئے اسے نہ صرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی پہچان سے سرفراز کیا بلکہ بھرپور عوامی مقبولیت سے بھی بہرہ ور کیا لیکن بحیثیت مجموعی اس پارٹی کا خمیر اس نوع کا عوامی ہے نہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جس کی تمنا اس کے قائد اپنے سینے میں موجزن کئے ہوئے ہیں شاید وہ بھی اسے سینہ بہ سینہ ہی رکھنا چاہتے ہیں بالفعل ایسی اٹھان کا یارا نہیں رکھتے۔
مہربانوں کو جو مسئلہ تنگ کئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ اگر ن لیگ کی قیادت اس بحران یا طوفان سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر 18کیا بائیس تئیس تک سب کی چھٹی ہو جائے گی بس یہی غم ہے جو مہربانوں کو کھائے جا رہا ہے اسی پس منظر میں بہت کچھ ہے جو نواز شریف کہنا چاہ رہے ہیں لیکن دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے تجربات نے انہیں بہت سی حکمتیں سمجھا دی ہیں لہٰذا وہ اس آسمانی آفت کے باوجود قدم ہی پھونک پھونک کر نہیں اٹھا رہے ہیں بول بھی تول کر رہے ہیں۔ نواز شریف کا یہ اظہارِ خیال بھی قطعی واضح تھا کہ ہم پر سرکاری خزانے یا وسائل کی خوردبرد یا کرپشن کے الزامات نہیں ہیں بلکہ شریف خاندان کے نجی و ذاتی کاروباری معاملات کو الجھایا یا اچھالا جا رہا ہے۔ میرے احتساب کا سلسلہ میری پیدائش سے پہلے 1936سے شروع ہو کر آئندہ نسلوں تک پھیلا ہو ا ہے، میں نے پائی پائی کا حساب دے دیا ہے، اگلے برس 20 کروڑ عوام کی بڑی عدالت یا JIT لگنے والی ہے جو 2013 سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ ہمارے حق میں فیصلہ کرے گی۔۔۔ میاں صاحب یہ درست ہے مگر اس دلدل سے نکلیں گے تو اس مرحلے تک پہنچیں گے لہٰذا پہلے اس سے سرخرو ہونے کی فکر کریں۔ مت بھولیں کہ یہاں تاریخ کا پہیہ پیچھے موڑنے والے بھی کمزور نہیں ہیں۔

 

.

تازہ ترین