ہمارا ملک قدرتی وسائل اور انسانی مسائل سے مالا مال ہے۔ انسان کے دیئے ہوئے معاشی مسائل پہ قابو پانا تو ہمارے بس میں نہیں البتہ قدرت کے دیئے ہوئے جسمانی خصائل کو قابو میں رکھنا ہمارے بس میں تھا مگر انہیں بھی ہم اپنے بس میں نہ رکھ سکے۔ آج ہم جسمانی خصائل کا تجزیہ کرتے ہوئے زبان اور پاؤں کا تجزیہ کرینگے۔
زبان:ہم جیسے ترقی پذیر معاشرے میں زبانوں کی تین قسمیں پائی جاتی ہیں۔ اعلیٰ زبان، دوغلی زبان اور سادہ زبان۔ اعلیٰ زبان بڑے بڑے اور رسوخ والے گھروں میں پائی جاتی ہے۔اعلیٰ زبان کو بچپن سے ہی بدیسی کھانوں اوربدیسی گانوں اور بدیسی زبانوں کا چسکا پڑجاتا ہے۔ لہذا یہ زبان دیسی زبان سے دور ہی رہتی ہے۔اعلیٰ زبان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اورجیسا منہ ہو ویسی بات منہ سے نکالتی ہے۔جب یہ زبان کسی سیاست دان کے منہ میں ہوتی ہے تو لچھے دار بن جاتی ہے ووٹ لینے سے پہلے میٹھی اور ووٹ لینے کے بعد تلخ بن جاتی ہے۔اعلیٰ زبان میں کچھ بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً،اس کی سب سے خطرناک اور عام بیماری” زبان سے پھر جانا“پائی جاتی ہے۔دو نمبر یعنی دوغلی زبان عام طور پہ مڈل کلاس یعنی درمیانے طبقے کے باشندوں کے منہ میں پائی جاتی ہے۔اسے دوغلی زبان اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ بیچاری نہ تو دیسی رہتی ہے اور نہ بدیسی یعنی اردو اور انگریزی کے درمیان پھنسی رہتی ہے چنانچہ یہ نہ ادھر کی رہتی ہے اور نہ اُدھر کی۔دو نمبر یا دوغلی زبان کی بیماریوں میں ایک عام بیماری زبان درازی کی بیماری ہے کہ اگر یہ زبان غلطی سے کسی صاف گو کے منہ میں لگ جائے تو اسے سینسرلگ جاتا ہے یعنی سینسر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے اور کچھ دیرچلنے کے بعد یہ زبان کاٹنی پڑ جاتی ہے۔ دوغلی زبان کو گھر کی زبان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ صرف گھروں میں ہی بولی جاتی ہے اور دفتروں میں اس کی کوئی نہیں سنتا لہذا یہ بیچاری ترقی بھی نہیں کرسکتی چنانچہ یہ زبان عمر بھرسولہ یا سترہ گریڈ میں ہی پڑی رہتی ہے۔زبان نمبر تین یعنی سادہ زبان ہمارے ہاں نچلے طبقے والوں کے منہ میں ہی پائی جاتی ہے۔یہ زبان چونکہ بچپن سے ہی غربت اور مفلسی کے منہ میں رہتی ہے لہذا یہ بیچاری نہ تو قومی زبان افورڈ کرسکتی ہے اور نہ ہی بین الااقوامی زبان، چنانچہ یہ بیچاری مادری زبان پہ ہی گذارہ کرتی ہے۔اسے سادہ زبان اسلئے کہا جاتا ہے کہ اسے اعلیٰ کھانے اور اعلیٰ بولنے کے ذائقہ کا موقع ہی نہیں ملتا اس لئے مجبوراً سادگی میں ہی بسر کرجاتی ہے۔سادہ زبان کی بیماریوں میں سب سے عام بیماری زباں بندی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ زباں نچلے طبقے کے منہ میں ہوتی ہے اس لئے یہ اپنے سادہ ماحول میں تو خوب چلتی ہے البتہ کسی بڑے افسر کودیکھتے ہی بندہو جاتی ہے۔ بڑی اور اعلیٰ زبانوں والے اکثر اس کے منہ میں لالچ کی روٹی ڈال کر اسے بند بھی کرا دیتے ہیں۔ہمارے ہاں کامیاب زباں وہی ہوتی ہے جو کرائے کی زباں ہوتی ہے یعنی منہ کسی کا اور زباں کسی کی۔ ہمارے ہاں چونکہ زبانوں کی بڑی ورائٹی پائی جاتی ہے اسلئے ہم کسی ایک زباں پہ نہیں ٹکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گھروں میں مادری زباں بولتے ہیں اوردفتروں میں انگریزی۔ ہماری مذہبی زباں عربی ہے اور ترانہ فارسی زبان میں۔
پاؤں:ہمارے ہاں پاؤں یعنی پیر بھی تین قسم کے پائے جاتے ہیں۔ نمبر ایک گرم پیر، نمبر دو نرم پیر، اور نمبر تین شرم پیر۔ گرم پیر ہمارے ہاں باہر کی بنی ہوئی قیمتی جرابوں اور باہر کے نرم جوتوں میں پایا جاتا ہے چنانچہ اس پیر کا ہماری دھرتی سے بہت کم واسطہ پڑتا ہے۔چونکہ گرم پیر گندے مندے راستوں کو پسند نہیں کرتا چنانچہ یہ پیر زمین پہ نہیں پڑتا بلکہ زیادہ تر ہوا میں ہی رہتا ہے ۔ظاہر ہے جب پیر ہوا یعنی ہوائی جہاز میں ہوگا تو زمین پہ کیسے پڑے گا؟ دو نمبر یعنی نرم پیر زیادہ تر مڈل کلاس یعنی درمیانے طبقے میں پایا جاتا ہے۔یہ پیر اوپر سے نرم دکھائی دیتا ہے حالانکہ اندر سے یہ جلاسڑا ہوتا ہے۔دراصل یہ جس جوتے میں رہتا ہے اُسے اوپر سے تو پالش کر کے چمکدار اور نیا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اس کاتلا گرمی سردی اور نا ہموار راستوں کی وجہ سے گل سڑ جاتا ہے اور پھٹے ہوئے تلے سے پیر جلتا رہتا ہے۔ تیسرے درجے کا پیر یعنی شرم پیرنچلے درجے کے انسانوں کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔اسے شرم پیر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی حالت دیکھ کر شرم محسوس ہوتی ہے۔شرم پیر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ گرمی سردی میں برہنہ رہ کر اتنا سخت جان ہو جاتا ہے کہ اسے جوتے کی ضرورت ہی پیش نہیںآ تی۔ ہمارے ہاں پیروں کی بیماریوں میں اپر پیر یعنی گرم پیر کی ایک بیماری یہ ہے کہ یہ قیمتی جرابوں اور قیمتی جوتوں میں رہ رہ کر پھیل جاتا ہے اور پھر چھوٹے موٹے پیروں کو کچلنا شروع کردیتا ہے۔اسے پیر پھیلانے کی بیماری بھی کہتے ہیں۔دو نمبر پیر یا درمیانے طبقے کے نرم پیر کی بیماریوں میں چادر سے باہر پیر پھیلانے کی بیماری عام پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جدھر لالچ نظر آئے ادھر کو مڑ جانا، اپنے پیروں پہ کھڑے نہ ہو سکنا، بھی نرم پیر کی بیماریوں میں شامل ہیں۔ شرم پیر یعنی نچلے درجے کی بیماریوں میں پیر پکڑ لینا، پیروں پہ گرنا، پیر دھو کر پینا اور پیر دبانا شامل ہیں۔ اسکے علاوہ چونکہ شرم پیر میں پیسے اور خون کی کمی ہوتی ہے لہذا اسکا اپنے پیروں پہ خود کھڑے ہونا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔پیروں کے کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں۔ انکو دبانے سے انکے مالک کو سکون ملتا ہے البتہ پیروں کے نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ نااہل لوگ کسی بڑے کے پیر پکڑ کر ترقی بھی کر جاتے ہیں۔چونکہ شرم پیر مالکوں کے بس میں نہیں ہوتے اسلئے وہ ہمیشہ دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پہ ہی چلتے ہیں اور اکثر غربت کی کھایئوں میں جا گرتے ہیں اوروہاں سے کبھی باہر نہیں نکل پاتے۔ مڈل کلاس والوں کے پیر وں کوسکون صرف اُسوقت ملتا ہے جب وہ اپنے ناپ سے ایک نمبر چھوٹے سائز کا جوتا پہنتے ہیں۔ آپ سو چ رہے ہونگے کہ چھوٹے سائز کا جوتا پہنے سے سکون کیسے مل سکتا ہے؟ آپ اسکا تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ آپ سارا دن کام کاج کرکے یاملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کے بعد شام کو تھکے ہارے جب گھر آئیں تو اپنے پیر میں پڑا ایک نمبر چھوٹا جوتا اتار کر دیکھیں ۔ تنگ جوتا اتارنے سے یقیناآپکو بڑاسکون ملے گا۔