• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورنہ یہاں کوئی قاتل کا قاتل نہ ہو گا
پارا چنار، کوئٹہ، کراچی دہشت گردی، 62شہید، ذمہ دار وہ ہے جس کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور خود ہمارے پنجرے میں ہے، 62عیدیں، ماتم ہوئیں، کیا انسانی دنیا اس ظلم مسلسل کو مسلسل نظر انداز کرتی رہے گی، ہماری جانب سے کوئی پرندہ بھی سرحد پار کر جائے تو گرفتار ہو جاتا ہے، ان کی طرف سے فوجی اہلکار بھی ہماری طرف کسی خاص مقصد سے آ نکلے تو ہم اسے باعزت واپس بھیجنے میں تاخیر نہیں کرتے، اس ستم گر کی عاجزانہ تصاویر نہ دکھائی جائیں کہ کہیں ہزاروں بے گناہ انسانوں کی روحیں ہمارا گریبان پکڑ لیں کہ کیوں ہمارے قاتل کے لئے ہمدردی پیدا کرتے ہو؟ کیا شہداء کے لواحقین معاف کرنے پر آمادہ ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کسی کے پاس معاف کر دینے کا اختیار نہیں، یہی ہمارا دین بھی کہتا ہے، کوئی ہمارا گھر جلا دے وہ ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم آس پاس سے پوچھیں کہ اسے چھوڑ دیں یا اس کا بھی گھر جلا دیں تو پھر شاید ہماری بستیوں کا کوئی گھر شعلوں سے محفوظ نہیں رہے گا، کیا ہمیں یہ احساس ہے کہ ہماری نفری کم کی جا رہی ہے، ہمیں قبروں میں جوق در جوق اتارا جا رہا ہے، مسئلہ کشمیر کا وجود ختم کرنے کے لئے کشمیریوں کی اور اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے پاکستانیوں کی نسل کشی کے ایجنڈے پر عملدرآمد جاری ہے، ہم دور کی نہیں اپنے سامنے پڑی تڑپتی لاشوں کی بات کر رہے ہیں، اور 62پاکستانیوں کو شہید کرنے کا مطلب 62 خاندانوں کو جیتے جی مارنا ہے، اب کوئی رعایت، ترس، لحاظ اور تاخیر کی گنجائش نہ رہی اب دنیا کی طرف دیکھنا بند کر دینا چاہئے، اپنے قاتلوں کو اپنے ہاتھوں مار دینا چاہئے، ورنہ یہاں کوئی قاتل کا قاتل بھی باقی نہیں رہے گا۔ ایک انسان کے جواباً قتل میں ہی باقی انسانوں کی زندگی ہے، اپنی زندگی اور ملکی سلامتی کی حفاظت پر ترس کھائیں، دہشت گردی ’’را‘‘ کر ا رہی ہے بلکہ آسان لفظوں میں بھارت کرا رہا ہے مقاصد وہی ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں ہیں، ہمیں لہو میں نہائی ہوئی عیدیں دینے والوں کو معاف کرنا خود ایک طرح سے اپنے خلاف دہشت گردی کی اجازت دینا ہے۔
٭٭٭٭
عید سے پہلے، عید کے بعد
ہمیں ٹھیک سے تو یاد نہیں لیکن لگ بھگ عید سے پہلے یہ شعر اکثر سنائی دیتا تھا؎
عید کا دن ہے گلے مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب آتش جوان تھا، اور پیار کے تبادلے بذریعہ کاغذی خط ہوا کرتے تھے، اب محکمہ ڈاک تو ہے پر ڈاک نہیں، پیار محبت، عداوت نفرت سب کچھ سوشل میڈیا پر منتقل ہو گیا، اب وہی ہوتا ہے جو منظور وائرل ٹویٹ ہوتا ہے، آن کی آن میں اچھا برا رطب ویا بس اس وسیلہ خبر کی نذر ہو جاتا ہے، اور؎
خبروں کے چھپنے سے پہلے ’’رُل‘‘ جاتی ہیں خبریں
ہم سے شاید اتفاق نہ کیا جائے مگر عید سے دوچار روز پہلے جو تیاری کے دن ہوتے ہیں ان میں ایک سہمی سہمی سی مگر دلچسپ خوشی کبھی دل کو کھبی بدن کو چھیڑتی ہے، تب لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے، گھروں میں ہر فرد بہت سوشل، خوش خوش اور عقلمند نظر آنے کی کوشش کرتا ہے نیک افراد اپنے مطابق برے افراد کو اہل دوزخ جانتے ہوئے ان کے پاس اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے حاجی وادی عذاب میں دوڑ لگا دیتے ہیں، آخر روزہ داری کا بھی اپنا ایک خمار ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں ریا کاری نہ ہو، عید سے پہلے اور عید کے بعد انسان کی حالت لگ بھگ ہجر کی رات وصل کے دن اور وصال یار سے فراغت پانے جیسی ہوتی ہے، ہم نے زندگی میں پہلی خوشی کو چاند رات میں شاعری کرتے دیکھا، چاند رات کو اتنے ستارے اور اتنے چاند نظر آتے ہیں کہ اہل نظر خریداری بھول جاتے ہیں۔ یہ بھی عید سے پہلے کی بہار ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عید اور اس کے آس پاس کی خوشیوں کا تعلق اس گھوڑی سے ہے جو نوٹ دکھائو تو دوڑتی ہے اور نوٹ سب کے پاس وافر نہیں ہوتے اس لئے عید اس کی ہے جس نے جسے ایک انسان کی عید کا بھی اہتمام کیا ہو، اگر ہر شخص اپنی عید کو دو پر تقسیم کر دے تو عید کی خوشیاں وائرل بنائی جا سکتی ہیں۔
٭٭٭٭
سائے میں دہشت گردی کے جئے تو کیا جئے!
ہماری ہر خوشی پر دہشت کا سایہ ہے
ناترس ستمگر ہمارا ہمسایہ ہے
اگر تو کسی برادر اسلامی ملک کی سرزمین ہمارے ہاں دہشت گردی کرنے والوں کا ٹھکانہ ہے تو پھر دیکھ لیں کہ بعض اوقات سارا جسم بچانے کے لئے متاثرہ حصہ کاٹنا پڑتا ہے، نیٹو فورسز اور انکل سام کیا کرنے بیٹھے ہیں افغانستان میں، جائیں افغان قوم کو خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے دیں، یہ کہاں کے مامے چاچے ہیں جو سرزمین مسلم پر غمخوار بنے بیٹھے ہیں، کسی کے ایماء پر پاک افغان سرحد کے ساتھ بھارتی قونصل خانے (دہشت گرد ٹھکانے) دن رات پاکستان کو تباہ کرنے کا سامان کر رہے ہیں، کیا ایک بھارتی سفارتخانہ کافی نہ تھا؟ اور جب دروازے کھولنے پر ہمارے قاتل ہمارے گھر آئیں تو ان دروازوں کی چوکھٹیں اکھاڑ پھینکنی چاہئیں، اگر کوئی افغان دروازے کھلوانا چاہتا ہے تو اپنی کٹھ پتلی قیادت سے کہے کہ وہ بھارت نیٹو فورسز اور امریکی فوج کو اس کے دیس سے نکالے، پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، دنیا کی مانی ہوئی فوج رکھتا ہے، لحاظ کے بندھن ٹوٹ بھی سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، جیو اور جینے دو ہمیں اپنی قبا کے چاک سینے دو یہ ہمارا استحقاق ہے، بہت ہو چکی، سوال پاکستان کے ارباب حل و عقد سے ہے، ہمیں عید سے پہلے خون میں نہائی ہوئی 62 عیدیں دے دی گئی ہیں، کیا اس کے باوجود بھی ہماری بزدلانہ اخلاقی خاموشی برقرار رہے گی؟ آج کیا ایک بھارتی جاسوس اب تک ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہے کہ ہم اسے باعزت بری کر دیں، چھوڑ دیں ،ایسا پاکستانی غیور عوام کبھی نہیں ہونے دیں گے طبقہ خواص اپنے مفاد کی خاطر قائدو اقبال کے پاکستان کو دائو پر نہ لگائے ورنہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی ضرور پسے گا۔
٭٭٭٭
کیا یہ تیرا میرا پاکستان ہے؟
....Oمریم نواز:بلوچستان پر حملہ ہمارے دلوں پر حملے کے مترادف ہے۔
بلوچستان، پارا چنار پر حملہ براہ راست ہمارے جسموں پر حملہ ہے،
....Oایم این اے جمشید دستی کی درخواست ضمانت منظور، دوبارہ گرفتار،
یہ ایک امیر اور غریب کی لڑائی ہے غریب کا بال ہی مارا جائے گا، یہی دستور ہے اس بستی کا۔
....Oیٰسین ملک:لگاتار لہو بہانے سے بھارتی حکمرانوں کی کشمیر دشمنی اجاگر ہو گئی،
اس لئے کہ ہم لگاتار یہی کہتے رہیں گے ظالمو! جواب دو خون کا حساب دو،
....Oعمران خان:بابر اعوان تحریک انصاف میں شامل، گاڈ فادر نے ادارے تباہ کر دیئے۔
اس ملک میں کون لیڈر ٹائپ کی چیز ہے جو ادارے تباہ کرنے کے جرم میں شامل نہیں۔ بابر اعوان مرد آزاد ہیں جسے چاہیں چھوڑ دیں، اپنا لیں،
....Oصدر پاکستان نے عید ملنے والوں کے لئے ایک گھنٹہ مختص کر دیا۔
لگتا ہے عید ملنے والے گھٹ گئے ہیں،

تازہ ترین