• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اجنبی سا ترکی ... خصوصی تحریر…فتح اللہ گولن

20سال سے میں جس امریکہ میں مقیم ہوں وہاں کے اور میرے وطن ترکی کے صدر وائٹ ہائوس میں گزشتہ دنوں ملاقات کرچکے ہیں، اس ملاقات میں امریکہ اور ترکی کے داعش سے مقابلہ، شام کے مستقبل اور خانہ بدوشوں سمیت بہت سے مشترکہ مسائل پر بات ہوئی لیکن ترکی جو کبھی جمہوریت کا پاسدار اور عوامی حقوق کی فراہمی کیلئے امیدوں کا مرکز تھا اب ایسے ہاتھوں میں اجنبی سا بن کر رہ گیا ہے جوآمر بننے کی کوشش میں سب کچھ کرنے کو تیار ہے ۔
اردوان نے گزشتہ 15جولائی کو کی جانے والی عسکری بغاوت کے بعد بے گناہ لوگوں پر ایک منظم طریقے سے مظالم ڈھانے کا آغاز کیا۔ کرد، علوی، بائیں بازو والے، صحافی، ماہرین تعلیم اور مجھ سے منسلک ایک پرامن انسانی تحریک خدمت کے ارکان سمیت تین لاکھ سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا گیا، گرفتار کیا گیا، ملازمتوں سے برطرف کیا گیا یا پھر مختلف طریقوں سے ان کی زندگیوں کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ بغاوت کی کوشش کے بعد میں نے اس کی پرزور مذمت کی اور اس کے ساتھ مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنہوں نے اس بغاوت میں حصہ لیا وہ میرے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے، اس کے باوجود 5000میل دور بیٹھے بغیر کسی ثبوت کے مجھے بغاوت کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔ اس سے اگلے ہی دن حکومت نے ایک ایسی فہرست تیار کی جن میں ایسے لوگوں کے نام شامل کئے گئے جنہوں نے خدمت سے متعلقہ بینک میں اکائونٹ کھلوائے، کسی اسکول میں استاد رہے یا کسی اخبار میں خبر شائع کی، ان لوگوں کی زندگیوں کو ایسے تباہ کرنا شروع کردیا جیسے کہ یہ ایک جرم ہو، ان کی فہرستوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو کئی ماہ پہلے فوت ہوچکے تھے یا پھر نیٹو کے روٹ پر فرائض سرانجام دے رہے تھے، بین الاقوامی ماہرین نے کئی ایسے واقعات رپورٹ کئے جن میں پرامن شہریوں کے اغوا، زیرحراست لوگوں پرتشدد اور قتل شامل ہیں، اردوان کی حکومت نے دوسرے ملکوں میں بھی بے گناہ لوگوں کا تعاقب کیا مثلاً ملائیشیا پر زور دیا گیا کہ وہ پندرہ سال سے وہاں ڈیوٹی کرنے والے ایک پرنسپل سمیت تین افراد کو ملک بدر کردے تاکہ انہیں ترکی پہنچتے ہی گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاسکے۔
ماہ اپریل میں صدر مبینہ سنگین دھاندلی کروا کر معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ایسا نظام لائے جو ملک کے تینوں ستونوں کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے تھا حالانکہ عملی طور پر پکڑ دھکڑ اور کرپشن کے ساتھ پہلے ہی یہ سب کچھ ان کے قابو میں تھا، آمریت کے گرداب میں پھنسے ترک عوام کی اس نئی تکلیف دہ صورتحال پر بہت افسردہ ہوں، حالانکہ انہوں نے یہ سب ایسے ہی شروع نہیں کیا تھا بلکہ AKP نے 2002 میں یورپی یونین میں شمولیت کیلئے جمہوری ریفارم کے وعدے کرکے اقتدار حاصل کیا تھالیکن وقت کے ساتھ ساتھ اردوان میں مخالفین کی رائے برداشت کرنے کا تحمل نہ رہا چند میڈیا چینلز پر اپنے حامیوں کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا 2013کی گرمیوں میں گیزی پارک سے متعلق ریلیوں کی آواز کو تشدد سے بند کروا دیا، کابینہ کے اراکین کو ماہ دسمبر میں جب بڑے پیمانے پر رشوت کی تفتیش میں شامل پایا تو میڈیا اور عدالت کو دبا کر خاموش رہنے پر مجبور کیا، پچھلے سال 15 جولائی کے بعد نافذ ہونے والے ایمرجنسی ابھی تک جاری ہے، بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں صحافی ترکی کی جیلوں میں سلاخوں کے پیچھے گل سڑ رہے ہیں۔ ترک حکومت کے اپنے عوام پر مظالم صرف داخلی سطح پر نہیں بلکہ اس ملک کیلئے لمبے عرصے تک خطرہ رہیں گے، ابھی تک تو عوام کے اندر AKP کی حکومت کے خلاف شدید تشویش پائی جاتی ہے ترکی کا تشدد کو پسند کرنے والے انتہا پسندوں کو خوش آمدید کہنا کردوں کی ناامیدی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ آمرانہ نظام، وسطی ایشیا کیلئے ایک ڈرائونا خواب بننے کے مترادف ہے۔
میری رائے میں ترک عوام کو جمہوریت کو ازسرنو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئےمغرب کی حمایت درکار ہے، ترکی نے 1950 میں نیٹو میں شمولیت کیلئے حقیقی معنوں میں کثیر پارٹی الیکشن کروائے، ممبر ملک ہونے کی حیثیت سے نیٹو، ترکی سے جمہوری روایات سے جڑے رہنے کا تقاضا کرسکتا ہے اور اسے کرنا بھی چاہئے، ترکی کے جمہوریت مخالف نظام نو کو بدلنے کیلئے دو اہم موضوعات پر مداخلت کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ تمام پرامن عوامی طبقات کی مدد سے بین الاقوامی حقوق اور انسانی اقدار کے پیش نظر اور مغرب کے کامیاب اور لمبے عرصے تک چلنے والی جمہوریت سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک جمہوری نظام کے ذریعے نیا عوامی آئین بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ جمہوری اور کثرت وجودی اقدار پر بحث کرنے اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے والا ایک نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے، ہر طالب علم کو حکومت کے فردی حقوق سے چلنے، طاقتوں کی صف بندی، غیر جانبدارانہ انصاف، آزاد میڈیا کی اہمیت، وطن پرستی، سیاست میں دین کو ملانے، حکومت یا کسی رہنما کو مقدس مقام پر رکھنے کے خطرے کے بارے میں پتہ ہونا چاہئے، لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے ترک حکومت کو اپنے عوام سے متعلق دبائو اور زیادتیوں کو روک کر، مظلوم لوگوں کے حقوق کی تلافی کرنا ہوگی، شاید میری عمر اتنی وفا نہ کرے کہ میں ترکی کو ایک مثالی جمہوری ملک کے طور پر دیکھ سکوں لیکن میری خواہش ہے کہ ترکی موجودہ آمریت کے گرداب سے جلدازجلد بچ نکلے۔

 

.

تازہ ترین