پاکستان کی سلامتی، دفاع اور جمہوریت کی حفاظت کیلئے ضروری ہے کہ اب اسکینڈلز کا دور ختم ہونا چاہئے سنسی خیز خبروں اور چونکا دینے والے انکشافات کا سلسلہ بھی رک جانا چاہئے۔ ایسا تب تک نہیں ہوگا جب تک ان تمام الزامات اور واقعات کی آزادانہ عدالتی تحقیقات نہیں ہو جاتی جنہوں نے ہماری قومی زندگی کو مسلسل صدموں اور شرمندگی سے دوچار کر رکھا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو سے جنرل ضیاء الحق تک کا دور گزر چکا اگر ان کے دور میں کوئی ایسا واقعہ یا اسکینڈل تھا کہ جس کی تحقیقات ہونی چاہئے تھی تو اس کا وقت ختم ہو چکا کہ یہ دونوں شخصیات دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ البتہ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے دور اقتدار سے لیکر اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے خاص طور پر وہ واقعات کہ جو رہ رہ کر ہماری جان نہیں چھوڑتے اور برسوں بعد کہیں نہ کہیں سے کوئی آواز اٹھتی ہے کہ اس میں وہ ملوث تھا یہ نہیں تھا یوں ہوا تھا اور یوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔
الطاف حسین کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ نواز شریف خاموش کیوں ہیں؟ جنرل مشرف اپنے دفاع میں کیا کہتے ہیں اور کیا ثابت کرتے ہیں؟ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کی جانب سے مذکورہ واقعات پر کیا کہنا چاہیں گے ان تمام کرداروں کے ”کردار“ کو ریکارڈ پر لایا جانا چاہئے۔ اس بات کا بھی فیصلہ ہونا چاہئے کہ منتخب حکومتوں کو گرانے میں ایجنسیوں کا کردار کیا رہا ہے۔ کون سے آپریشن بیرونی دباؤ یا کسی آمر کی ذاتی انا کی وجہ سے کئے گئے۔ جناح پور کے نقشوں سے لیکر لاپتہ افراد تک کے پس پردہ حقائق کیا ہیں پاکستان کو توڑنے والوں کا اتہ پتہ اور ہزاروں لاپتہ افراد کی مکمل معلومات بھی قوم کو سامنے آنی چاہئیں۔ 92 اور اس کے بعد کراچی میں جتنے بھی آپریشن ہوئے ان میں ہونے والے نقصانات اور اصل وجوہات کو بھی سامنے لایا جائے ایم کیو ایم کے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ہونے والے تمام خفیہ معاہدوں کو بھی سامنے لایا جائے ان معاہدوں کے ذریعے جو لوگ جیلوں سے رہا کرائے گئے ان کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کی حقیقت کیا تھی۔ اسٹیل مل سے لیکر دفاعی سودوں تک مختلف محکموں کے حوالے سے کرپشن کے جو اسکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔ بینکوں کے ذریعے قرضوں کی اسکیم کا بھی جائزہ لیا جائے کہ بینک قرضے کن لوگوں کو دیئے ہیں اور پھر معاف کیوں کر دیتے ہیں اس طرح سے قومی نقصان اور گروہی مفادات کے بارے میں معلوم کیا جانا چاہئے۔چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری کی قیادت اور موجودگی میں پاکستان کی عدلیہ پر نہ صرف عوام کا بھرپور اعتماد ہے بلکہ یہ امید اور یقین بھی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ پاکستان کو اس سنگین بحران سے نکالنے میں معاون و مددگار ہو سکتی ہے کہ جس نے پاکستان کے ہرادارے اور فرد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے گو کہ عدلیہ پر پہلے ہی کافی بوجھ ہے مگر چونکہ عدلیہ کے بغیر کوئی دوسرا دروازہ بھی نہیں۔ پارلیمنٹ ناکام ہے، انتظامیہ نااہل ہے اور حکومت کرپٹ ہے لہٰذا بحالت مجبوری عدلیہ ہی کو اپنا دروازہ کھولنا ہوگا۔ مذکورہ عدالتی کمیشن پر اگر وقت کی قید نہ لگائی جائے تو وہ ان تمام الزامات اور اسکینڈلز کی بآسانی تفتیش مکمل کر سکتا ہے۔ ایک آزاد اور با اختیار عدالتی کمیشن میں آئے مکمل غیر جانبداری اور انصاف کے ساتھ ان تمام الزامات ، سانحات، اور اسکینڈلز کی تحقیقات کرے کہ جن کی وجہ سے پاکستان کمزور ہو رہا ہے اور عوام مایوس۔تاہم اس کے لئے ہماری تجویز ہے کہ 18 فروری کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں کو آگے بڑھ کر یہ فریضہ انجام دینا چاہئے جس کے لئے ایک طریقہ کار یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابتدائی طور پر سید منور حسن، لیاقت بلوچ ، عمران خان، محمود خان اچکزئی، رسول بخش پلیجو، حافظ حسین احمد، علی احمد کرد، اعتزاز احسن، اکرم شیخ، منیر ملک سمیت بعض دیگر معروف سیاسی اور وکلاء برادری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے درمیان مکالمہ ہونا چاہئے اور پھر کوئی ایسا متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے کہ جو ایک ”با اختیار عدالتی کمیشن“ قائم کرنے کے مطالبے کی بنیاد بن سکے۔