• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچے تیری مٹھی میں کیا ہے.....سب جھوٹ…امر جلیل

کبھی ختم نہ ہونے والا یہ قصہ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ یہی کوئی ساٹھ برس پرانا ہے۔ اس قصے کو آپ قصہ رائج الوقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہر دور کا قصہ ہے۔ تب میں سینئر سٹیزن نہیں بنا تھا۔ میں جونیئر سٹیزن تھا بلکہ بوائے یعنی لڑکا سٹیزن تھا نہ جانے کیسے، نہ جانے کہاں سے مجھے مانگ کر کھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ صبح سویرے اپنے ڈیرے سے نکلتا اور صدا لگاتا تھا ”ہے کوئی خدا کا نیک بندہ جو مجھے ناشتہ کرادے؟“
کسی نہ کسی در سے، کسی نہ کسی گھر سے مجھے ناشتہ مل جاتا تھا۔ میں سیر ہو کرکھاتا اور پھر دوپہر تک شہر کی گلیوں، کوچوں میں بے مقصد گھومتا رہتا تھا۔ سجائے ہوئے دکانوں کے شوکیسز کے سامنے گھنٹوں رک جاتا اور ٹکٹکی باندھے پیپر مشین کے ماڈلز کو عمدہ لباس، سوٹ، ٹائی، جوتے، جوئیلری سے لدا پھدا دیکھتا رہتا تھا۔ چمکتی ہوئی دکانوں میں جھانکتے اور شوکیسز دیکھتے ہوئے دوپہر ہوجاتی تھی۔ ناشتہ ہضم ہوجاتا تھا۔ میں دوپہر کے کھانے کی تلاش میں نکل پڑتا تھا۔ صدا لگاتا تھا ”ہے کوئی خدا کا نیک بندہ جو مجھے دوپہر کا کھانا کھلائے؟“
کس در سے کسی گھر سے مجھے دوپہر کا کھانا مل جاتا۔ میں خوب پیٹ بھر کر کھانا کھاتا۔ ڈکار لیتا اور کسی گھنے درخت کی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا اور پھر جمائیاں لیتے ہوئے سو جاتا تھا۔ شام گئے آنکھ کھلتی تھی۔ صدا لگاتے ہوئے میں چل پڑتا تھا ”ہے کوئی خدا کا نیک بندہ جو مجھے شام کی چائے پلائے؟“ایک کپ چائے ملنے میں دیر نہیں لگتی تھی اور پھر رات کے کھانے تک میں گھومتے پھرتے، تانک جھانک کرتے، اور سرکس کے چکر لگاتے ہوئے وقت گزارتا تھا۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم بھی گزر جاتے ہیں۔ میں رات کے کھانے کے لئے صدا لگاتا ”ہے کوئی خدا کا نیک بندہ جو مجھ فقیر کو رات کا کھانا کھلائے؟“کسی نہ کسی گھر سے، کسی نہ کسی در سے مجھے رات کا کھانا مل جاتا۔ خوب پیٹ بھر کر میں کھانا کھاتا اور سو جاتا تھا۔ بڑی ہی آسودہ زندگی گزر رہی تھی ایک روز اچانک معاشرے میں بڑی تبدیلی آئی۔ جب میں نے صدا لگائی ”ہے کوئی خدا کا نیک بندہ جو مجھے خدا کے نام پر کھانا کھلائے؟“
تب نہ کوئی در کھلا، نہ کوئی گھر کھلا کسی نے جھانک کر دریچوں سے نہیں دیکھا۔ صدا لگاتے لگتے میرا گلا گھٹنے لگا۔ پریشان ہو کر میں نے ایک دروازے پر دستک دی اور صدا لگائی ”ہے کوئی خدا کا نیک بندہ جو مجھے خدا کے نام پر کھانا کھلائے؟“
دروازہ کھلا… ایک مچھندر مشٹنڈا باہر آیا۔ اس نے مجھے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا ”اگر پھر کبھی خدا کے نام پر کھانا مانگا تو تیرے سر پر ڈنڈے ماروں گا، مانگنا ہے تو اللہ کے نام پر مانگ“۔میں ڈر گیا اور تھوڑی دیر کے لئے مر گیا۔ مچھندر مشٹنڈے سے کچھ پوچھنا بے سود تھا۔ اپنا سر مجھے عزیز تھا۔ میں نے صدا لگائی“۔ ہے کوئی اللہ کا نیک بندہ جو مجھے اللہ کے نام پر کھانا کھلائے؟“مچھندر مشٹنڈے نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ گھر کے اندر گیا اور میرے لئے ڈھیر سارا کھانا لے آیا۔ کھانا کھاتے ہوئے مجھے بار بار علامہ اقبال کا ایک شعر اور اپنے قومی ترانے کا آخری بند یاد آتے رہے بلکہ میرے وجود میں گونجتے رہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ علامہ اقبال کے اس شعر میں جو خدا کا ذکر ہے، اس کا کیا بنے گا؟ اور ہمارے قومی ترانے کا خدا بند ہے سایہ خدائے ذوالجلال
قومی ترانے کے اس بند کا کیا بنے گا؟ ہم جیسے فقیروں کا اس بحث سے کیا لینا، کیا دینا! ہمیں پیٹ بھر کھانا کس کے نام میں، کس کے نام پر ملتا ہے، اس سے ہمارا کیا؟ اس دوران میرے دل اور دماغ پر برسوں سے پڑا ہوا بوجھ اتر گیا۔ میں نے خدا کے نام پر بیشمار قسمیں کھائی تھیں۔ معاشرے سے اچانک خدا کے مسترد ہوجانے کے بعد مجھے ان قسموں سے مکتی یعنی چھٹکارا مل گیا تھا۔ اب میرے پاس قسمیں پوری کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی مجھے زہر کھا کر مرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
لڑکپن میں صرف غالب نے سنگ نہیں اٹھایا تھا کہ انہیں اپنا سر یاد آیا تھا۔ لڑکپن میں ایک چھوٹی سی، معصوم سی محبت میں نے بھی کی تھی آپ لاکھ انکار کریں، ایک معصوم سی محبت لڑکپن میں آپ نے بھی کی ہوگی مگر یہ الگ بات ہے کہ بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہوجانے کے بعد ہم ان سے اپنی معصوم محبتیں چھپاتے پھرتے ہیں لیکن میرے مولیٰ نے مجھے اس آزمائش سے آزاد کردیا ہے۔ میرے بیٹا ہے نہ بیٹی، اس لئے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مجھے اپنی معصوم بے ضرر، بے لوث محبتیں چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لڑکپن میں ایسی ہی ایک محبت میں نے بھی کی تھی۔ اس کا ننھا منا ہاتھ اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں لے کر میں نے قسم کھائی تھی۔ ”خدا کی قسم ریٹا، تجھ سے جدا ہو کر میں زندہ نہیں رہوں گا، زہر کھالوں گا“۔
ہم جدا ہوگئے،کئی دہائیاں گزر گئیں، حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں مگر خدا کے نام پر کھائی ہوئی ایک قسم میں توڑ نہ سکا۔ زہر کھانے سے میں ٹال مٹول کرتا رہا اور زندہ رہا اور اب تک زندہ ہوں مگر دل پر خدا کے نام پر کھائی ہوئی قسم کا بوجھ جھیلتا رہتا تھا۔ مچھندر مشٹنڈے نے جس روز مجھے بتایا کہ خدا اور اس کی خدائی کا دور ہمارے معاشرے میں اب اختتام پذیر ہوا ہے اس روز خدا کے نام پر کھائی ہوئی ایک قسم کا بوجھ میرے دل سے اتر گیا۔ ایک کیا، خدا کے نام پر کھائی ہوئی تمام قسموں کا بوجھ میرے دل سے اتر گیا۔ کئی عدالتوں میں خدا کو حاضر ناظر جان کر میں نے جھوٹی گواہیاں دی تھیں اور لوگوں کو پانچ، دس اور چودہ برس کی قید با مشقت لگوا دی تھی۔ دوچار لوگوں کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا تھا۔ خدا کی قسمیں کھا کر لوٹانے کے بجائے میں لوگوں کی امانتیں ہڑپ کرگیا تھا، قرض ہضم کرگیا تھا۔ این آر او کے بغیر مجھ تگڑم کی نجات ممکن نہ تھی مگر میں کوئی سیاستدان یا بیورو کریٹ تو تھا نہیں کہ این آر او سے مستفید ہوتا۔ یہ تو خدا بھلا کرے مچھندر مشٹنڈے کا جس نے خدا کے دور کے اختتام کی خبر مجھے سنائی اور میرے ضمیر سے منوں بوجھ اتار دیا۔ کھیل ختم، ہیرا پھیری کے پیسہ ہضم۔ بینکوں کے قرضے ہڑپ۔پھر کئی برسوں تک میں اللہ کے نام پر بھیک مانگتا رہا۔ پھر ایک روز عجیب واقعہ پیش آیا۔ صبح سویرے میں اللہ کے نام پر بھیک مانگ رہا تھا ایک ڈھابے والا اونچی آواز میں ریڈیو سری لنکا سے پرانی فلموں کے گیت سن رہا تھا۔
میں نے جس وقت ڈھاپے والے سے اللہ کے نام پر ناشتہ کی بھیک مانگی اس وقت پس منظر میں محمد رفیع کا ایک گیت گونج رہا تھا۔
ننھے منے بچے تیری مٹھی میں کیا ہے؟
مٹھی میں ہے تقدیر ہماری۔
ہم نے قسمت کو بس میں کیا ہے۔
میں بچہ نہیں تھا بلکہ بڈھا تھا۔ بڈھا کھوسٹ تھا۔ پھر بھی مٹھی کھول کر میں نے ہتھیلی کی طرف دیکھا۔ تقدیر میری مٹھی میں نہیں تھی۔ نہ ہی میں نے قسمت کو بس میں کیا تھا بھیک وصول کرتے کرتے میرے ہاتھ کی لکیریں مٹ چکی تھیں۔
اچانک گیت کا ایک مصرع بچوں کی آواز میں گونجا:
”بھیک میں جو موتی ملیں وہ بھی ہم نہ لیں گے“۔
میں نے تہیہ کرلیا کہ میں بھوکا مرجاؤں، مگر بھیک نہیں مانگوں گا۔ کسی سے بھیک نہیں لوں گا اور پھر میں نے یہی کیا۔ میں نے بھیک مانگنا اور لینا چھوڑ دیا۔ میں کسی کام کاج کا تو تھا ہی نہیں۔ کچھ ہی دنوں میں فاقوں کے لالے پڑ گئے۔ پانی پی کر کوئی کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ میں نڈھال رہنے لگا۔ ان داتا الگ پریشان رہنے لگے۔ وہ پریشان تھے کہ بھیک منگا کہاں غائب ہوگیا۔ جب ان کوپتہ چلا کہ میری برسوں سے سوئی ہوئی غیرت اور حمیت اچانک کروٹ بدل کر جاگ اٹھی تھی، ان داتا کنسوریشم بنا کر میرے پاس آئے۔ کنسوریشم کے کرتا دھرتا نے کہا ”بھیک مانگنے اور بھیک لینے سے انکار کرکے تم نے اپنا وقار ہماری نگاہوں میں بڑھا دیا ہے“۔میں بجھی بجھی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کنسوریشم کے ایک سینئر ممبر نے کہا ”اب تمہیں بھیک مانگنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے تمہارے لئے امدادی رقم مختص کردی ہے، جو تمہیں بغیر مانگے ملتی رہے گیا۔ قصہ مختصر، اب میں بھیک نہیں مانگتا مجھے مانگے بغیر امداد مل جاتی ہے۔

تازہ ترین