جب سے نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں شاید ہی کسی کو کوئی شک و شبہ ہو کہ ان کی سیاسی وارث محترمہ مریم ہوں گی۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران والد اپنی بیٹی کی سیاسی تربیت کرتے رہے ہیں تاکہ وہ ان کی جگہ لینے سے قبل مکمل طور پر تیار ہو جائیں۔اس عرصہ کے دوران مریم تعلیم،صحت،یوتھ اور سوشل ویلفیئر کے مختلف شعبوں میں کافی سرگرم رہی ہیں۔ ان کا سب سے اہم رول ن لیگ کی میڈیا پالیسی بنانے اور چلانے میں رہا ہے۔ انہوں نے ایک بہت موثر ٹیم تیار کر رکھی ہے جو ہر روز مختلف ٹی وی چینلز اور دوسری جگہوں پر حکومتی پالیسی واضح کرتی ہے اور اپنے مخالفین کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی ہے۔ن لیگ میں ایک دھڑا مریم کے پارٹی میں اہم کردار اور ان کی آئندہ پروموشن کا مخالف ہے مگر چلنی وہی ہے جو نوازشریف چاہیں گے کیونکہ ان کا پارٹی پر مکمل کنٹرول ہے۔ن لیگ کے کسی بھی لیڈر نے کبھی بھی کھل کر مریم کی مخالفت نہیں کی مگر کئی دبے دبے الفاظ میں پرائیویٹ بات چیت میں اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں تاہم ان میں جرات نہیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار وزیراعظم کے سامنے کرسکیں۔عین ممکن ہے کہ وہ آئندہ بند کمرے کے اجلاسوں میں اپنی اس رائے کا اظہار کریں جب حتمی طور پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ مریم اب پارٹی سنبھالیں گی اور وزیراعظم کی امید وار بھی ہوں گی۔اس طرح کا فیصلہ آئندہ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل کئے جانے کا امکان ہے۔مریم کی موجودہ سیاسی انٹری سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی الیکشن کمپین کافی موثر انداز میں چلانے کے قابل ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ وہ کافی حد تک ن لیگ کی انتخابی مہم کی انچارج ہوں گی۔
باوجود ا س کے کہ مریم درپردہ کافی سرگرم رہی ہیں مگر ابھی تک ان کی سیاست میں باضابطہ لانچنگ نہیں ہوئی تھی۔ یہ کریڈٹ پاناما جے آئی ٹی کو جاتا ہے کہ اس نے انہیں یہ موقع فراہم کر دیا ہے جب وہ اس کے سامنے 5جولائی کو پیش ہوئیں۔جے آئی ٹی کے ساتھ 2گھنٹے کے انٹرویو کے بعد جو باتیں انہوں نے پریس کانفرنس میں کیں اس میں ان کا لب و لہجہ اپنے والد جیسا تھا۔ یہ ان کی پہلی بھر پور سیاسی بات چیت تھی جو کہ کافی سخت اور پراعتماد تھی۔انہوں نے اپنی پارٹی اور خاندان کا کیس بڑے جارحانہ مگرنرم اور مہذب لہجے میں پیش کیا اور ساتھ ساتھ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان پر بھی گولہ باری کی۔ اگر جے آئی ٹی انہیں طلب نہ کرتی اور صرف سوال نامہ ہی بھجوا دیتی تو ابھی مزیدکچھ وقت لگتا کہ مریم سیاسی میدان میں باضابطہ طور پر انٹر ہوتیں۔ انہوں نے بھی وزیراعظم کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ذکر کیا مگرسازشی عناصر کا نام نہیں لیا۔تاہم انہوں نے دھمکی دی کہ ان کے والد کو سازش بے نقاب کرنے پر مجبور نہ کرو اور ڈرو اس دن سے جب وہ عوام کے پاس جائیں گے۔نہ صرف مریم بلکہ نوازشریف کے بیٹوں حسین اور حسن نواز کو بار بار جے آئی ٹی میں طلب کرنے کا مقصد وزیراعظم کو دبائو میں لانا تھا مگر یہ سارا کھیل الٹا پڑ گیا ہے کیونکہ ان کی پیشیوں کی وجہ سے نوازشریف کو کچھ سیاسی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے۔صرف وزیراعظم اور مریم ہی نہیں بلکہ ن لیگ کے اور بہت سے اہم لیڈر بھی بار بار حکومت کے خلاف سازشوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اور لگتا بھی یہی ہے کہ جے آئی ٹی کے سارے کھیل کا مقصد نوازشریف کو عہدے سے ہٹانا ہے کیونکہ ان کا چہرہ پسند نہیں ہے صرف ان کی پالیسیوں کی وجہ سے حالانکہ اپنے موجودہ دور اقتدار میں وزیراعظم میں کافی تبدیلی واضح رہی اور باوجود بہت اشتعال انگیزی کے انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ نہ صرف وزیراعظم، مریم ن لیگ کے رہنمائوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے بہت سے لیڈروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت کے خلاف کیاسازش ہے اور سازشی عناصر کون ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ان کا نام لینے کو تیار نہیں ہے اور اشاروں میں ہی بات کرتے ہیں۔یقیناً اگر وہ کھل کر ان کا نام لے لیں تو مختلف اداروں کے درمیان ٹکرائو ہو جائے گا جو کہ نہ ملک اور نہ ہی جمہوریت کے لئے فائدہ مند ہو گا۔
اگر سپریم کورٹ نوازشریف کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو ن لیگ تیار ہے کہ وہ کسی دوسرے ایم این اے کو وزیراعظم بنا دے جو کہ اگلے عام انتخابات تک اپنے عہدے پر رہیں گے تاہم اس بات کا امکان نظر نہیں آرہا کہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ ن لیگ کے سربراہ چاہے کسی اے بی سی کو وزیراعظم نامزد کریں گے وہی قومی اسمبلی سے منتخب ہو جائیگا مگر اصل وزیراعظم تو نواز شریف ہی ہوں گے کیونکہ پارٹی ان کی ہر بات ماننے کو تیار ہے۔ اس صورت میں وہ اگلی انتخابی مہم میں ’’مظلوم ‘‘کا کارڈ کھل کر استعمال کریں گےاور یہ کہ ان کو سازش کے ذریعے اپنے عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ وہ پاکستان کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جارہے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کی صورت میں پی ٹی آئی کو کچھ فائدہ ہو گا مگر اتنا زیادہ نہیں کہ وہ اگلے انتخابات جیت سکے۔ اس وقت ن لیگ میں بھی کسی حد تک کھلبلی مچے گی اور ہو سکتا ہے اس کے کچھ لیڈر اسے چھوڑ بھی جائیں مگر اس سے پارٹی کو بہت زیادہ نقصان نہیں ہوگا تاہم اس کے لئے یہ فیز کافی مشکل ہو گا جس میں نقصان کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔آج سے 3 دن بعد جے آئی ٹی اپنی حتمی رپورٹ عدالت عظمی میں پیش کر دے گی اور یہ تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔پہلے دن سے ہی اس 6رکنی تفتیشی ٹیم کی کارکردگی پر اور بہت سے سوال اٹھتے رہے ہیں اور اپنے آخری ہفتوں میں تو یہ انتہائی متنازع ہو گئی۔ جے آئی ٹی نے گزشتہ 60دنوں میں بڑی ٹامک ٹوئیاں ماری ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف اس کے ہاتھ کچھ لگ جائے مگر بظاہر ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ اس کی بڑی کوشش رہی ہے کہ اسے کوئی مل جائے اور اس نے ایسی ہی آفر شریف فیملی کے ایک دوست جاوید کیانی جس کو اس نے بطور گواہ طلب کیا تھا بھی کی تھی۔باوجود اس کے کہ شریف فیملی اس کے تعصب کے بارے میں شور مچاتی رہی مگر اس نے اپنا کام اپنے ہی انداز میں جاری رکھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا 3ممبر امپلی منٹیشن بنچ جس کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان ہیں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ تاہم جتنی بھی اس نے انٹرم رپورٹس ان ججوں کے سامنے پیش کیں یا جو بھی اقدامات یہ لیتی رہی بنچ نے ان کو بڑے احسن انداز سے ہی دیکھا اور اس کے کسی بھی ایکشن پر سوال نہیں اٹھایا۔ عین ممکن ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں بنچ وزیراعظم کو سنے اور انہیں بطور ممبر قومی اسمبلی نااہل قرار دے دے یا ان کے خلاف ریفرنس احتساب عدالت میں بھجوا دے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ شریف فیملی چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکے سامنے درخواست رکھے کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلے کے لئے نیا بڑا بنچ بنایا جائے کیونکہ اسے اس پر اعتماد نہیں ہے۔ پھر یہ چیف جسٹس پر منحصر ہو گا کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کیس کسی ماتحت عدالت کو بھیجا گیا تو یہ معاملہ سالہا سال تک لٹک جائے گا اور شاید کچھ بھی فیصلہ نہ ہو سکے۔