گلگت اور بلتستان میں 12/ نومبر 2009ء کو کرائے جانے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں عوام نے شدید سردی کے باوجود جس جوش و جذبے اور احساس ذمہ داری کے ساتھ حصہ لیا ہے وہ اس امر کی کھلی شہادت ہے کہ وطن عزیز کے باسیوں کو جب بھی اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا جاتا ہے تو وہ کسی تردد یا ابہام کا شکار نہیں ہوتے اور دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ دیتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد اس علاقے میں پہلی بار ہونے والے عام انتخابات میں رائے دہندگان نے جتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے اور شہروں میں ہی نہیں دور دراز دیہات تک میں جس طرح جوانوں، بوڑھوں اور خواتین ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں ان سے صاف عیاں ہو رہا تھا کہ ملک کے مرکزی دھارے سے کسی قدر کٹے ہوئے اور الگ ہونے کے باوجود یہاں کے باشندے سیاسی شعور سے پوری طرح آراستہ ہیں اور اگر انہیں اپنے انتظامی معاملات آزادانہ اور منصفانہ طور پر چلانے کا موقع ملا تو ان کے نمائندے اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کے لئے بہتر پالیسیاں تشکیل دینے اور ان پر موثر عمل درآمد کرنے کا مظاہرہ ہی نہیں کریں گے بلکہ وفاق کے لئے بھی تقویت اور مضبوطی کا باعث بنیں گے۔ رات گئے انتخابی نتائج کا جو غیر سرکاری اعلان کیا گیا ہے اس کے مطابق ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق اور جے یو آئی ایف کو ایک ایک اور پاکستان مسلم لیگ ن کو 3 نشستیں ملی ہیں جبکہ حکمران پیپلز پارٹی 12 نشستیں لے کر اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تین آزاد امیدوار بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر آزاد امیدواروں کا جھکاؤ مقتدر پارٹی کی جانب ہی ہوتا ہے اس لئے اگر وہ پی پی پی کی طرف مائل ہوئے تو پھر اسے مزید عددی اکثریت حاصل ہو جائے گی ورنہ وہ آزادانہ طور پر بھی انتظامی معاملات پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے قابل ہو گی۔ ان انتخابات میں سیاسی پارٹیوں نے جس دھوم دھڑکے سے حصہ لیا اور عوام نے جس طرح برملا اپنی رائے کا اظہار کیا اس کے بعد آنے والے انتخابی نتائج کو بڑی حد تک خوشدلی سے تسلیم تو کر لیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں جیتنے والی پارٹی پر دھاندلی کے الزامات لگانے کی جو روایت موجود ہے اس سے اس الیکشن میں بھی جان نہیں چھڑائی جا سکی اور اسی تناظر میں دو اہم پارٹیوں کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ اگر حکمران پارٹی کی جانب سے دھاندلی سے کام نہ لیا جاتا تو ان کی کارکردگی کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے لیکن گورنر گلگت بلتستان قمر الزمان قائرہ نے بڑے واضح الفاظ میں اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں اور انتخابات انتہائی شفاف ماحول میں منعقد ہوئے ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد اس میں حصہ لینے والی تمام پارٹیاں آپس میں مفاہمت کے جذبے کے ساتھ کام کریں گی۔ قدرتی حسن اور مناظر فطرت کی رنگا رنگی سے معمور یہ علاقہ ترقی کے اعتبار سے ملک کے دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ پسماندہ ہے۔ اس لئے اس کے باسیوں کا طبعی، فطری اور قانونی حق ہے کہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے تمام سیاسی پارٹیاں مل جل کر کام کریں اور جس طرح بلوچستان کی سیاسی و معاشی ناآسودگی کو دور کرنے اور بلوچ عوام کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے حکومت ایک جامع پیکیج دینے کی تیاریاں ہی نہیں کر رہی بلکہ اسے پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن میں ہی پیش کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے اور ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف تو اس صوبے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے نہ صرف حکمران پارٹی سے ہرممکن تعاون کرنے پر رضا مند ہیں بلکہ ناراض بلوچ رہنماؤں اور حکومت میں ثالثی کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے آمادہ ہیں اگر حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں وسیع تر قومی و ملکی مفاد میں گلگت اور بلتستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی اسی طرح اکٹھی ہو جائیں تو یہاں کے عوام کی دیرینہ مشکلات کو دور کرنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس وقت ہمارا ملک دہشت گردی، معاشی و اقتصادی زبوں حالی، بجلی کی قلت اور گرانی ایسے جن بڑے چیلنجوں سے دوچار ہے ان کا اولین تقاضا ہے کہ وطن عزیز کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ان کی سنگینی کا احساس کریں اور اپنے صوبائی، نسلی، گروہی اور پارٹی سیاست سے جنم لینے والے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کو بچانے کے لئے ایک نقطے پر متحد ہو جائیں۔ پاکستان کے عوام خواہ وہ سرحد و پنجاب سے تعلق رکھتے ہوں یا سندھ اور بلوچستان سے سب اپنے پیارے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آمرانہ اور غیر منتخب حکومتوں کے ادوار میں ان سے نا انصافیاں ہوئی ہیں اگرچہ ان حق تلفیوں سے کسی صوبے کا کوئی استثنیٰ نہیں لیکن بلوچستان کے زخم زیادہ گہرے ہیں جن کو رفو کرنے کی جدوجہد کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اس سے بلوچ عوام میں جو احساس محرومی اور غم و غصہ پیدا ہوا ہے اس کو ایکسپلائٹ کرنے کے لئے کئی بیرونی قوتیں بھی مصروف عمل ہیں ہمارا ایک روایتی دشمن ہمسایہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے بلوچستان میں اپنے کارندوں کے ذریعے تخریبی کارروائیوں کو جس تسلسل کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کو جس طریقے سے استعمال کر رہا ہے اس کے بارے میں وزیر داخلہ رحمان ملک ہی نہیں سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی اور متعدد عسکری ماہرین جو کچھ انکشافات کر رہے ہیں انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
گلگت اور بلتستان بھی اپنی حساسیت کے اعتبار سے بلوچستان سے کسی طرح کم نہیں کہ اس پر بھی اغیار کی نظریں لگی ہوئی ہیں اس علاقے کے عوام کو انتظامی آزادی دے کر اور عام انتخابات کے ذریعے امور مملکت میں شامل کرنے کا فیصلہ اگرچہ خاصی تاخیر سے کیا گیا ہے لیکن یہ درست سمت میں اٹھایا جانے والا ایک اہم قدم ہے جس سے عوام کی مشکلات کو دور کرنے میں قابل ذکر مدد ملے گی وفاق کی جانب سے اگر سارے صوبوں اور اکائیوں کو اسی طرح ساتھ ملا کر رکھنے کی جدوجہد کی جائے اور تمام سیاسی پارٹیاں بھی وسیع تر قومی مفاد میں خلوص نیت سے اس کا ساتھ دیں تو وہ مسائل جو اس وقت بڑے بڑے پہاڑوں کی شکل میں نظر آرہے ہیں ریزہ ریزہ ہو جائیں گے شرط صرف یہ ہے کہ مشکلات کو دیکھ کر حوصلہ نہ ہارا جائے اور اتحاد کی قومی قوت سے ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی جائے۔