• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے۔ کہتے ہیں نواز شریف نے کرپشن کی ہے، اس لئے استعفیٰ دے۔ وہی پرانا گھسا پٹا اسکرپٹ جو ہر سویلین دور حکومت میں پاکستانی سیاست کے باکس آفس کیلئے خصوصی طور پر ریلیز ہونے والی فلموں کا ہوتا ہے۔ کل کی بات ہے آصف زرداری نشانے پر تھے، روز خبریں آتیں یا دی جاتیں کہ زرداری استعفیٰ دے رہے ہیں، انکو فالج ہو گیا ہے، وہ دبئی بھاگ گئے ہیں اور جانے کیا کیا۔ روز کوئی نئی فلم اور روز کوئی نیا تھیٹر، اب تو خیر تھیٹروں اور اینکروں۔۔ معاف کیجئے گا اداکاروں کی فوج ظفر موج ہر وقت روزگار کی تلاش میں کسی نئی فلم کے انتظار میں رہتی ہے۔ فلم کا نام جو بھی ہو، کردار جو بھی ہوں، اداکار جو بھی ہوں،ا سکرپٹ ایک ہی ہوتا ہے کہ کسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو چین سے حکومت نہیں کرنے دینی اورکسی نہ کسی بہانے سے اسکی نیندیں حرام کئے رکھنی ہیں۔ عذر بے بہا ہیں لیکن مقبول ترین عذر ’’کرپشن‘‘ او ر’’احتساب‘‘ ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی آمریت اور عوام کی جمہوریت کا فرق سمجھنے کیلئے دو مثالیں کافی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہیرو پرویز مشرف اور جمہوریت کے ہیرو جاوید ہاشمی کا موازنہ کرلیں۔ پرویز مشرف ریٹائر ہوا تو مبینہ طور پر اربوں روپے کے فلیٹ ، کروڑوں روپے کے بنک اکائونٹ نکلے۔ کہتا ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ نے پیسے دیئے۔ سوال کریں، کیوں؟ جواب آئیں بائیں شائیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں کہتے ہیں کہ کوئی کسی کو بغیر مفاد کے چائے کی پیالی بھی نہیں پلاتا۔ عدالتوں سے مفرور ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور اس اعزاز کا کریڈٹ وہ جنرل راحیل شریف کو دے چکا ہے۔ کمر درد کا بہانہ بنا کر بھاگ گیا اور آج تک اعلیٰ عدالتوں کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ جب اسی درد بھری کمر سے ٹھمکے لگا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرتا ہے تو مجھے خیال آتا ہے کہ یہ ٹھمکے وہ ہمارے نظامِ عدل کو لگا رہا ہے لیکن مجال ہے کہ ہمارا نظام عدل تھوڑا سے بھی سرک جائے۔ دوسری طرف جاوید ہاشمی کی مثال۔ کسی دھج سے وہ ریٹائر ہو رہا ہے، اسکی شان دیکھیں، اسکی گریس دیکھیں۔ ہر طرف سے مشکلات نے گھیرا ہوا ہے، قومی اسمبلی کی نشست کو ٹھوکر مار دی، ن لیگ کے جعلی جمہوریت پسندوں کی طرف سے ہزیمت کا نشانہ، اسٹیبلشمنٹ نشان عبرت بنانے پر بضد، ذرائع آمدن محدود اور مالی مشکلات کی پنشن لئے جاوید ہاشمی تن تنہا جمہوریت کو بچانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ نواز شریف کو ہاشمی سے، اور ہاشمی کو نوازشریف سے جو "عقیدت" ہے، قریبی حلقوں کو خوب معلوم ہے۔ ایک طرف پرویز مشرف ہے جو اسٹیبلشمنٹ کا بھی سگا نہ نکلا اور آئے روز اسے خفت کا شکار کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف جاوید ہاشمی ہے جو جعلی جمہوریت پسندی کا ڈسا ہوا ہے لیکن جمہوریت کی لاج رکھنے میں جُتا ہوا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کی جنگ آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اور اسکے اتارے ہوئے پراکسی "پہلوان" کرپشن کی آڑ میں نواز شریف کو جب "گجیاں سٹاں" لگا رہے ہیں، تو جاوید ہاشمی نے عوام کو اصل کھیل اور اصل کھلاڑیوں سے روشناس کرایا ہے مبادا لوگ سچ مچ ہی اس کھیل کو "احتساب" نہ سمجھ لیں۔ جمہوریت کے دوسرے ہیرو اعتزاز احسن بھی بروقت عوام کو اصل کھیل سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے نواز شریف سے جو مطالبہ کیا ہے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ کہا، بھٹو کے خلاف سازش تو فوج اور عدلیہ نے کی تھی، نواز شریف بتائیں انکے خلاف سازش کون کر رہا ہے۔ یہ سوال کم اور جواب زیادہ ہے۔ لیکن ایک اختلاف کی جسارت میں ضرور کرونگا۔ بھٹو کے خلاف سازش فوج نے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی اور انکو پھانسی عدلیہ نے نہیں بلکہ چند ضمیر فروش ججوں نے لگائی تھی۔ فوج تو لاکھوں جوانوں اور ہزاروں افسروں پر مشتمل ہے جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ملک و قوم کی حفاظت کرتی ہے۔ چند سازشی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جرنیلوں، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کا جتھہ جسے میں اسٹیبلشمنٹ کہتا ہوں، اگر فوج کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس پر افسوس کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے کئے دھرے کو فوج کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسی طرح بھٹو کو پھانسی دینے والے بنچ میں توجسٹس صفدر شاہ جیسے جج بھی تھے جنکی زندگی جنرل ضیا نے جہنم بنا دی تھی۔ سو چند ضمیر فروش ججوں کے جمہوریت کیخلاف سازش کا حصہ بن جانے پر ساری عدلیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
بھٹو کیخلاف سازش ہوئی تھی جسکے سارے کردار آج ننگے ہیں، اور سازش تو اسوقت بھی ہو رہی ہے، یہ وہی سازش ہے جو ہر جمہوری دور میں سویلین حکومت کے خلاف ہوتی رہی۔ لیکن اس دفعہ اسکی شدت تھوڑی زیادہ ہے کیونکہ اس بار پہلی دفعہ ایک جمہوری حکومت نے آئین توڑنے والے غاصب جرنیل کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔ پھر’’ہماری بلی اور ہمیں ہی میائوں‘‘ والا معاملہ بھی ہے کہ نواز شریف کس نرسری سے سیاستدان بنے سب کو معلوم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ غصے سے بے قابو ہے کہ اگر پرویز مشرف کا احتساب ہو گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے دیگر کرداروں کے احتساب کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔ اس لئے مشرف کو کمر درد کے بہانے فرار کرانے اور نواز شریف کو ایک فوجی آمر کیخلاف عدالتی کارروائی شروع کرنے پر سبق سکھانے کی سازش تیار کی گئی۔ سو اس وقت سے یہ سازش جاری ہے۔ جنرل قمر باجوہ پیشہ ورانہ امور میں دلچسپی لینے والے، آئین کے تقدس کا خیال رکھنے والے اور جمہوریت پسند آرمی چیف کی شہرت رکھتے ہیں۔ اور انکی طرف سے اوپر نیچے کئے جانے والے فیصلوں سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے لیکن پھر بھی اسٹیبلشمنٹ خصوصا اس میں موجود ریٹائرڈ لوگ اپنی پرانی روش سے باز آنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح عدلیہ میں مجموعی طور پر آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کا رجحان کافی مضبوط ہے لیکن سازشیں کرنے والے عدلیہ کو اقتدار کی اس جنگ میں گھسیٹنے سے باز آنے کو تیار نہیں۔ سو اس تناظر میں سب سے اہم سوال کا جواب کیا ہو، کیا نواز شریف کو استعفیٰ دینا چاہئے؟ اگر تو مسئلہ کرپشن یا احتساب ہوتا تو ہم سب یک زبان ہو کر کہتے، نواز شریف استعفیٰ دو۔ لیکن کرپشن اور احتساب کے بہانے تو ستر سال میں ہر عوامی وزیر اعظم کو ہٹایا گیا۔ سو کرپشن مسئلہ ہے نہ احتساب۔ مسئلہ سازش کا ہے۔ کیوں نہ اس دفعہ ہم سب مل کر ہر وقت سازشیں کرنے والی اسٹیبلشمنٹ سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں؟

تازہ ترین