جو سبق نہیں سیکھتے ، زمانہ اپنی کچل دینے والی بے رحم قوت سے انہیں سکھاتا اور پامال کر تاہے ۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ وقت کے مقابل صرف وہ ٹھہریں گے ، جو ایمان اور حسنِ عمل کی متاع رکھتے ہوں ، جو صبر اور سچائی کے خوگر ہوں، فقط وہی ۔
اتنا بڑا حادثہ ہو چکا اور بعض نے اب بھی سبق نہیں سیکھا۔ جمعرات کی شام مخدوم شہاب الدین ڈوبے اور راجہ پرویز اشرف ابھر آئے ۔تب ٹی وی سے ایک رپورٹ نشر ہوئی: ان کے حلقہ ء انتخاب میں ووٹر شاد مان ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج آنجناب کے سر پہ سجے گا۔ اتفاق سے ناچیز وہیں تھا ، ایک تقریب میں ، جو شہر کے نجیب اور ہر دلعزیز معالج ڈاکٹر یعقوب نے برپا کی تھی ۔ پروفیسر صاحب کے اہلِ خانہ اور عزیزوں کے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے پر۔ پروفیسرکے قبیلے کا یہی شعار ہے ۔ ایک ذرا سا بہانہ ہی درکار ہو تا ہے ۔رسان سے وہ کہتے ہیں : ہم نے خوش خلقی اور حسنِ طعام کے قرینوں کو فروغ دینے کی کوشش کی اور الحمد للہ کامیاب رہے ۔ لاہور کے ایک بہت بڑے ہوٹل کے مالک نے گذشتہ ماہ مجھ سے کہا : 36شیف میرے ہاں موجود ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا لذیذ باربی بنا نہیں سکتا۔ سوال کیاجائے تو اپنے دوستوں اور شاگردوں سے وہ یہ کہتے ہیں : کھانا کھلانا انبیاء کی سنت ہے ، جو وقت مہمان کے ساتھ بسر ہو ، خالق اسے زندگی میں شمار نہیں کرتا اور روزِ حشر اس روپے کا حساب نہ لیا جائے گا۔ ایک بار میں نے گستاخی کی: اگر آپ کے بارے میں کتاب لکھوں تو ظاہر ہے کہ تنقید بھی ہو گی ۔ کہا: جی ہاں ، خوش خوراکی او رتمباکو نوشی پر تولازماً ۔ اس کے سو ابھی کچھ چیزیں ہوں گی لیکن یہ تو نقطہء نظر کی بات ہے ، اس پر اعتراض کیسا۔ بحث ان کے ہاں بہت ہوتی ہے اور بہت خوشدلانہ آمادگی کے ساتھ ۔ یہ انہی کا قول ہے کہ جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے ، وہیں سے جہالت کی ابتدا۔ ممتاز مفتی مرحوم نے ایک بار شکایتاً کہا : مستنصر حسین تارڑ آ پ کے قائل نہیں ۔ کہا : یہی تو اچھی بات ہے۔ عقیدت خطرناک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود وہ بہت تھوڑا سا کھاتے اور فقط تین گھنٹے سوتے ہیں کہ صبح کاذب سے سحر نو بجے تک ہی تنہائی انہیں میسر ہوتی ہے ۔ باقی وقت تو انہی کا ، جنہیں مرید کی بجائے وہ دوست کہتے ہیں ۔ جج او رجنرل ، افسر اور کلرک، چرواہے اور طالب علم ، دانشور اور ترکھان۔ آج تک اللہ کے کسی بندے نے ان سے شکایت نہیں کی کہ وہ اس کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش نہ آئے۔ ایک بار یہ کہا : اللہ کا شکر ہے کہ بارش ہو یا دھوپ ، ہمیشہ ہر ایک کی بات سنی او رکبھی کسی کی توہین کا ارتکاب نہ کیا۔ ایک شب (اب) امریکیوں کے قیدی سیف اللہ پراچہ کو اپنی پرواز کے سبب بھوکا رخصت ہونا پڑا تو ملال سے کہا: مہمان نوازی کی سنت پوری کرنے کی اپنی سی کوشش کی مگر شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ سرکار کا پورا پیروکار کوئی نہیں ہو سکتا۔ آرزو البتہ برقرار رہنی چاہئے۔
مجیب الرحمان شامی نے ٹیلی ویژن پر کہاکہ راجہ پرویز اشرف کے لیے غالباً ان کی دعا ہے لیکن تصدیق تو ہارون الرشید ہی کر سکتا ہے ۔ جی ہاں ، انہوں نے دعا دی تھی اور اس پر میں نے احتجاج کیا تھا ۔ ہمیشہ کی نرمی اور شفقت سے جواب یہ ملا کہ نون لیگ کے امیدوار پر منشیات فروشی کا الزام ہے او راکثریت کو اس پر یقین ۔ لوگ جب پوچھنے آئے تو بددیانتی کا ارتکاب کیسے کرتا۔
غالباً یہ 1996ء کے الیکشن تھے، راجہ پرویز اشرف پروفیسر صاحب کے گھر کی سیڑھیاں چڑھے اور کون نہیں چڑھا؟ ساجد میر، پرویز الٰہی ، چوہدری شجاعت حسین ، زمرد خان ، خواجہ آصف ، ظفر اللہ خان جمالی سے لے کر عمران خان تک ۔ نون لیگ کے ایک صاحب کو؛البتہ منع کر دیا تھا لیکن وہ لاہو ر ہائی کورٹ کے د و ججوں کو لے کر آدھمکا تو خاموش رہے ۔ یہ الگ بات کہ کچھ دیر میں انہی میں سے ایک نے عالی جناب کی طرف اشارہ کر کے یہ کہا: اللہ اس طرح کے منافقین سے ملک کو نجات دے ۔
راجہ پرویز اشرف نے دعا کی درخواست کی تویہ کہا : میں راجہ نادر پرویز کی توثیق کر چکا ۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد آپ کو موقع دے ۔ اگلا موقع پرویز اشرف نے ضائع نہ کیا ؛اگرچہ ا س انتخاب میں انہوں نے معتوب اور مظلوم نون لیگ کے زیادہ امیدواروں کی مدد کی۔ بعد میں البتہ مجھ سے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کے زمرد خاں مظلوموں کی مدد میں مستعد ہیں ، تم ان کی ستائش کیوں نہیں کرتے ؟ نون لیگ کے رانا نذیر کو اب میں ان کے ہاں پاتا ہوں ۔ رائے مسلط کرنا تو دور کی بات ، اپنے حاضر باشوں کو وہ تلقین بھی نہیں کرتے ۔ سیاست ان کا اصل موضوع نہیں بلکہ تطہیرِ افکار اور تزکیہ ء نفس اور وہ بھی ایسی الفت اور ایسے انس کے ساتھ کہ بخدا مثال ملنا مشکل ہے ۔
جمعرات کی شب گیارہ بجے تک جاری رہنے والی اس تقریب میں کوئی ایک شخص راجہ پرویز اشرف سے مطمئن نہ تھا۔ سب کے سب اتنے ہی ناراض جتنے کسی اور دیار کے ۔ علاقے کے سابق مقبول ناظم حمید الدین نے جو شاید آئندہ الیکشن میں تحریکِ انصاف کی طر ف سے صوبائی امیدوار ہوں ، قومی اسمبلی کے امیدوار چوہدری عظیم کو مبارک دی : راجہ وزیر اعظم ہو گیاتو نا اہل ہو جائے گااور اگربن نہ سکا تو خوار۔ ٹکٹ کا فیصلہ تو پارٹی کرے گی لیکن باوسیلہ مگر حیران کن حد تک سادہ اطوار چوہدری عظیم مگن تھے ۔ وہ ہماری سیاست کی مستثنیات میں سے ایک ہیں ۔ گلیوں بازاروں میں عامیوں کی طرح گھومتے ہیں اور کبھی کسی مسجد میں تنہا بیٹھے پائے جاتے ہیں ۔ایسے نرم خو نہیں کہ کوئی چبا ڈالے اور نہ ایسے سخت کہ لوگ گریزاں رہیں ۔ غیب کا علم اللہ کے سوا کس کو ہے ، یوں بھی ہمدردی کے سبب میری رائے کی اہمیت زیادہ نہیں مگر خیال میرا یہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں تحصیل گوجر خان سے تحریکِ انصاف کے سوا کسی پارٹی کو کوئی نشست نہ ملے گی ۔راجہ پرویز اشرف کا تو سوال ہی نہیں جو کبھی اس شہرمیں جوتوں کی ایک دکان چلاتے تھے اور اب ان کا برادرِ خورد دندناتا پھرتا ہے ۔ خود کو اس نے شہر کے "سرپرستِ اعلیٰ " کا لقب دے رکھا ہے ۔ دوسرا "نیک نام"تاجی کھوکھر کا شریکِ کا رہے ؛چنانچہ ا س کی شہرت میں بھی شریک۔ اشرف خاندان کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نام کا آخری حصہ بھانجوں نے ماموں سے لیا ہے ؛ ان کے والد مرحوم "سنگھر "تھے ، جن کے نام پر راولپنڈی میں سانگھر ٹاؤن آباد کیا جا رہا ہے ۔ دولت انہوں نے بے حساب کمائی ہے او رکس طرح ؟ کوئی اخبار نویس گوجر خان کے مکینوں سے پوچھ کر بہی کھاتہ بنا لے ۔ اس نواح کے مکین انہیں اپنی بدنامی کا باعث کہتے ہیں ۔ بھاڑے کے بجلی گھروں کا قصہ سبھی کو معلوم ہے اورسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کی ایک ذرا سی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ان کے حریف عظیم چوہدری اتنے مقبول اور اس قدر سرگرم ہیں کہ راجہ صاحب لڑ سکے تو دانتوں پسینہ آئے گا۔ رہی نون لیگ تو ا سکے دھڑے باہم متصادم ہیں اور ایک دوسرے کو تباہ کر دینے کے درپے۔ علاقے میں پارٹی کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو رشوت خوری کے علاوہ مخلوقِ خدا کی توہین پر تلا رہتاہے۔ وزیر اعلیٰ شہبا زشریف کی مکمل تائید انہیں حاصل ہے۔ کوئی تردید فرمائے تو نام لکھ دوں گا ، شواہد پیش کر دوں گا۔
جانبداری کس چڑیا کا نام ہے ؟ ہر آدمی کسی کو پسند اور کسی کو ناپسند کرتا ہے ۔ واقعات نگاری میں کذب بیانی البتہ شرمناک ہے او روہ لوگ کس طرح اعتبار اور عزت پا سکتے ہیں جو اس کارِ مکروہ کے مرتکب ہوں۔ ہم اخبار نویس دوسروں کو بہت کوستے ہیں ۔ اپنے گریباں میں بھی ہمیں جھانکنا چاہئے ۔ ملک ریاض کیس نے جو المناک صورتِ حال پیدا کی ، کیا وہ بھی ہمیں جھنجھوڑ نہیں سکی؟ جو سبق نہیں سیکھتے ، زمانہ اپنی کچل دینے والی بے رحم قو ت سے انہیں سکھاتا اور پامال کر دیتاہے ۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ اس کے مقابل وہی ٹھہر سکتے ہیں ، جو ایمان اور حسنِ عمل رکھتے ہوں ، جو صبر اور سچائی کے خوگر ہوں، فقط وہی۔