• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت عظمیٰ ،کوئی امیدوار، نہ لابنگ، نواز شریف کافیصلہ حتمی ہوگا،احسن اقبال

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ میں کوئی امیدوار ہے نہ کوئی لابنگ ہو رہی ہے نواز شریف کافیصلہ  پوری پارٹی مانے گی انہی کا فیصلہ حتمی ہوگا، سنیئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ مورل اتھارٹی کمزور ہو تو پھر آپ کے لئے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ آپ اپنے عہدے سے علیحدہ ہوجائیں،تجزیہ کار افتخار احمدنے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوا کہ بیس سال پرانی چیزوں کو لے کر آئیں اور اس پر ساری سیاست کریں ۔

وہ جیو کے پروگرام ”آپس کی بات “ میں گفتگو کر رہے تھے ۔ میزبان منیب فاروق نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کی نااہلی کی دائر کردہ درخواست خارج کردی گئی ہے، مسلم لیگ ن کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ نا صرف میاں نواز شریف بلکہ شہباز شریف کو بھی قانونی جنگ میں الجھا یا جاسکتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ میں کسی پوزیشن کا امیدوار نہیں ہوں میں جو کام کررہا ہوں اس میں خوش ہوں ۔

انہوں نے کہاکہ میری توجہ مرکز جو پراجیکٹ ہماری حکومت میں شروع ہوئے ہیں اس کو مکمل کرنا ہے ، خدانخواستہ اگر اس قسم کی صورتحال پیش آجاتی ہے کہ وزیر اعظم نااہلی ہوجاتے ہیں تو ہماری پارٹی میں مکمل اتحاد و اتفاق ہے نواز شریف کی قیادت کے اوپر اور ہمیں امید ہے کہ ان کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ نہیں آئے گا اور اگر اس قسم کی کوئی صورتحال آتی ہے تو یہ وہ مرحلہ ہے جس کا ہم پہلے بھی سامنا کرچکے ہیں ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ایسا فیصلہ آتا ہے تو جو نواز شریف فیصلہ کریں گے اس کو پوری پارٹی قبول کرے گی اس لیئے یہاں پر نہ کوئی امیدوار ہے ، نہ کوئی لابی کررہا ہے پارٹی کا مکمل اتفاق و یکجہتی وزیراعظم کی لیڈرشپ پر ہے ۔انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی ایکٹرز ہیں جو سیاسی و جمہوری عمل سے مایوس ہوچکے ہیں اور جو ان کے دیگر ساتھی ہیں جنہوں نے دھرنا 1کرنے کی کوشش کی تھی اسی طرح اس وقت بھی وہ یہی کر رہے ہیں کہ غیر جمہوری طریقے سے ملک میں تبدیلی لاسکیں ، انہوں نے کہا ان قوتوں کی کیفیت ترکی کے گولن کی طرح ہوچکی ہے جیسے وہاں کوشش کی گئی کہ اس حکومت غیر منتخب طریقے سے ہٹایا جائے۔جس تاریخ سے ہم گزر رہے ہیں یقینا تاریخ ان سب سے پردہ اٹھائے گی اور پانچ دس سال کے بعد لوگ شفاف انداز میں دیکھ سکیں گے کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہوا تھا ، اگر وزیراعظم سی پیک کے ذریعے پاکستان کو معاشی طاقت بنانے کے راستے پر چلتا ہے تو اس کو ٹارگٹ کرکے ہٹادیا جاتا ہے انہوں نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف جس نے آئین توڑا ، لندن میں فلیٹس اور بیرونی اکاؤنٹس ہیں وہ معصوم ہیں ان کا کوئی گناہ نہیں ہیں ۔

وہ پیپلز جس کا ایک ایک دن کرپشن سیلابوں سے پورے ملک کو گندا کرتا تھا آج وہ بیٹھ کر ہمارے احتساب کی بات کررہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا سی پیک میں صرف چائنیز کو تشویش نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کو ہے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج کی دنیا میں معلومات، سرمایہ کاری ، افراد اور انڈسٹریز عالمی سطح پر آگے بڑھتے ہیں اور آج دنیا میں مقابلہ ہے کہ کون سی محفوظ جگہ ہے جیسے ہی آپ کسی جگہ پر غیر سیاسی عناصر پیدا کرتے ہیں تو وہاں سرمایہ کار بھاگ جاتا ہے ۔پاناما کہ ذریعہ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کا بھونچال نہیں لایا گیا جیسا کہ پاکستان میں لایا جارہا ہے جبکہ یہ ایک ایسی حکومت ہے جس نے پاکستان کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل میں پاکستان کو اوپر کی سطح پر لے کر گیا ہے اور یہ دنیا مانتی ہے کہ ہم نے کرپشن کو کم کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کی اصل کامیابی صرف یہ نہیں ہے کہ چین کے ورکرز کا دفاع کرنا ہے یا ہم نے کوئی سیکورٹی وال کھڑی لی بلکہ اس سے بڑی سیکورٹی آف انویسٹ منٹ کلائی میٹ ہے جو ہم نے پاکستان میں قائم رکھنی ہے ۔اگر ہم اس کلائمیٹ کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے تو آپ20000فوجی اور رکھ لیں تب بھی سی پیک کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔ پروگرام کے میزبان منیب فاروق کی جانب سے پوچھے گئے سوا ل پاناماکیس میں سپریم کورٹ کو وزیراعظم کی جانب سے جوابات نہیں مل رہے اس احسن اقبال نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ جواب نہیں آیا چونکہ وزیراعظم براہ راست یا غیر متوقع طور پر ملوث نہیں ہیں اسی لیئے ان کا جواب دینا نہیں بنتا البتہ ان کے بچوں نے جے آئی ٹی کے سامنے وہ تمام ٹریل سامنے رکھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاناما کیس آئین و قانون کے مطابق چلے گا اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا لیکن لوگ اس چیز کو محسوس کررہے ہیں کہ وزیراعظم کو جیسے گِرل کیا جارہا ہے کچھ چیزوں کے بارے میں اگر یہ بات مان لی جائے کہ بیانات میں تضاد ہے تو وزیراعظم کے مئوقف میں کوئی معمولی تضاد ہوگا اس کے اوپر آپ نے دیکھا کیا حشر ہوگیا یہاں زرداری صاحب کے کے ٹو سے بڑے بڑے کرپشن کے پہاڑ ہیں اورجنرل مشرف کے آئین شکنی کے پہاڑ ہیں اس کو تو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا ۔

ہم نے جب ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو آپ نے دیکھا کہ اس کے نتیجے میں وہ الائنس بھی ٹوٹ گیا جو جمہوریت کا تھا اور آج سارے اکھٹے کھڑے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ بات چوہدری نثار سے پوچھ سکتے ہیں کہ انہیں کیا برالگا میں اپنی دانست میں کوئی ایسی چیز نہیں کہی تھی جس سے وہ برا منائیں ،ہوسکتا انہیں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو لیکن میں سب کا احترام کرتا ہوں ہماری پارٹی کے تمام لوگ قابل احترام ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے ہم سب اپنی رائے دیتے ہیں اور جو فیصلہ ہوتا ہے تو ہم سب اس پر متفق ہوجاتے ہیں ۔ وزیراعظم کے خلاف سازش کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جب سے ہماری حکومت آئی ہے اس پر پی ٹی آئی اور عمران خان نے مختلف طریقوں سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی ہے اس بارے میں جاوید ہاشمی صاحب سے زیادہ مصدقہ کوئی گواہ نہیں ہوسکتا ، وہ ان کے اندرونی گواہ ہیں ، انہوں نے پہلے بھی قوم کو بتایا تھا کہ ان کے کیا ڈیزائن ہیں اور ابھی بھی وہ گاہے بگاہے بتاتے رہے ہیں ، ہم اس بات کو مکمل طور پر دیکھ رہے ہیں کہ یقینا کوئی نہ کوئی سیاسی ایجنڈا ہے جس سے وزیراعظم کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے لیکن ہمیں سپریم کورٹ پر اعتماد ہے کہ سپریم کورٹ کسی سیاسی ایجنڈے سے دباؤ میں نہیں آئے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہمیشہ تاریخ میں لکھے جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا نیشنل ایکش پلان جس پر ہم نے سب اکھٹہ کرکے اس ملک کے اندر دہشت گردی آپریشن ضرب عضب اور آئین کے لیئے ترمیم پاس کروائی اگر ہم نے victimizationشروع کی ہوتی تو پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں سے ہم تعاون لے سکتے تھے ہمارے سامنے بڑے ایجنڈا تھے کہ اس ملک کو دہشت گردی سے صاف کرنا تو ایک ٹریڈ آف تھی کہ یا ان کی کرپشن کو پکڑیں یا قوم کو ساتھ لے کر آگے چلیں ۔ جیو کے پروگرام آپس کی بات میں سنیئر تجزیہ کار زاہد حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں اس کو قبل از وقت نہیں کہوں گا ایک لحاز سے جو دباؤ بڑھ رہا ہے اسکی وجہ بھی ہے جب سے مقدمے شروع ہوئے ہیں وزیراعظم کے خلاف خاص طور پر جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ٹھیک ہے ان پر کوئی لیگل بائنڈنگ نہیں ہے کہ وہ استعفیٰ دیں لیکن جب آپ کی مورل اتھارٹی کمزور ہوتی ہے تو پھر آپ کے لئے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ آپ اپنے عہدے سے علیحدہ ہوجائیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم کہتے ہیں جمہوریت کو مستحکم ہونا چاہیے تو میرا خیال ہے نئی مثالیں بھی ڈالنی چاہیں۔

ایک سوال کے جواب میں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کو فیصلہ نہیں کرنا ہے ۔ اس پر ہم اپنی رائے دے سکتے ہیں اس سیاسی صورتحال کی وجہ سے ۔ جمہوریت اس سے خطرے میں نہیں پڑتی ہے اس سے ایک نئی روایت قائم ہوسکتی ہے۔جتنے بھی وزیراعظم یہاں سے ہٹائے گئے ہیں ایک غیر آئینی طریقے سے ہٹائے گئے ہیں چاہے وہ بھٹو ہوں چاہے دوسرے ہوں یاتو آپ کہتے گلوبل سازش ہے ایسا لگتا ہے دنیا سارے مسائل بھول کر صرف نواز شریف کے پیچھے پڑ گئی ہے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان کو کوئی موقع نہیں مل رہا ان کو پورا موقع دیا جارہا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس سے جمہوریت کمزور نہیں ہو رہی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سازش کی بات کی جائے تو کیا سپریم کورٹ ساز ش کر رہا ہے یا کوئی اور کر رہا ہے جیو کے پروگرام آپس کی بات میں سنیئر تجزیہ کار افتخار احمدنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوا کہ بیس سال پرانی چیزوں کو لے کر آئیں اور اس پر ساری سیاست کریں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ کافی پرانے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس وقت مشورہ دینے والے جو آج مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ استعفیٰ دیں وہ کیا کر رہے تھے کیا انہوں نے پاکستان میں اُن اداروں کی کوئی ایماندارانہ کوشش کی یہاں ایسے ادارے ہوں کہ اس قسم کی صورتحال میں وہ ایکٹ کریں دوسرے ملکوں کی ہم مثال دیتے ہیں دوسرے ملکوں میں منی لانڈرنگ کے معاملے میں فوری طور پر عمل ہوتا ہے دس پندرہ سال بعد آپ کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دیں ایسا نہیں ہوتا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ یا تو ہم آئین پر یقین رکھیں اس ملک کی عدلیہ میں یقین رکھیں یا پھر ہم اپنی من مانی پر یقین رکھیں ۔ سپریم کورٹ نے کہا ہم صرف جے آئی ٹی کی جو تفتیش ہے اس حد تک محدود نہیں رہیں گے ۔ اب استعفیٰ کس چیز پر مانگ رہے ہیں ، مارل اتھارٹی کا اطلاق صرف نواز شریف پر ہی کیوں ہو اس کا اطلاق ان جج صاحب کے اوپر بھی ہونا چاہیے جن کا نام ہے پاناما میں ان کے لئے آپ کہتے ہیں نہیں ان کے لئے طریقہ کار کا تعین اور کیا گیا ہے اس لئے ہم اس کو زیر بحث نہیں لاتے ۔جمہوریت کو موقعہ دیں آپ سپریم کورٹ میں چلے گئے ہیں سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں سپریم کورٹ پر اعتماد کریں اگرآپ نہیں کریں گے سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پہلے ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیں گے سڑکوں پر تو دو غلطیاں کر رہے ہوں گے ایک ہم موجودہ جمہوری نظام کو سبوتاژ کر رہے ہوں گے اور دوسرا سپریم کورٹ پر ایک اعتماد بحال ہو رہا ہے اُس کو بھی ہم ختم کر دیں گے ۔

جمہوریت کسی ایک آدمی کا نام نہیں اور جمہوریت رویوں کا نام ہے اس میں رویہ صرف حکومتی پارٹی کا نہیں ہوتا اس میں اپوزیشن کا بھی رویہ ہوتا ہے اس ملک کے اندر جب چارٹر آف ڈیموکریسی لکھا گیا تو ہم جیسے لوگوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا تھا کہ بہت اچھا ہوا معاملات یہاں تک پہنچ گئے۔

تازہ ترین