یہ ایک حسن اتفاق ہی ہے کہ میں اپنے دورہ افریقہ کے آخری مرحلے میں جنوبی افریقہ پہنچا ہوں تو یہاں کے باسی اپنے ہردلعزیز بابائے قوم کی سالگرہ کی مناسبت سے نیلسن مینڈیلاانٹرنیشنل ڈے منا رہے ہیں، نیلسن مینڈیلا انسانی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جس نے نسلی امتیاز کے خلاف ایک پرامن طویل جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے یہ پیغام دیا کہ ترقی کی دوڑ میں آگے وہی معاشرے بڑھ سکتے ہیں جہاں امن ہو اور قیامِ امن کیلئے تعصبات کا خاتمہ ضروری ہے، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے نومبر2009میں ایک قرارداد کے ذریعے جنوبی افریقہ کے عظیم سپوت نیلسن مینڈیلا کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں سالانہ بنیادوں پر یہ دن منانے کا اعلان کیاتھا۔رقبے کے لحاظ سے براعظم افریقہ دنیا کا دوسرا بڑا خطہ ہے جو گھنے جنگلات، صحراؤں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے، افریقہ کی زمانہ قدیم سے اپنی خاص اہمیت رہی ہے، جہاں افریقہ کے باسی قدیمی تہذیب و تمدن کے حامل ہیں وہیں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کی شرمناک تاریخ کے بھی گواہ ہیں۔ افریقہ کاجنوبی علاقہ پانچ ممالک بوٹسوانا، لیسوتھو، نیمبیا، سوازی لینڈ اور جمہوری جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے ، خطے میں سب سے اہم ترین ملک جنوبی افریقہ کو قرار دیا جاتا ہے جو ماضی میں مغربی سامراجی قوتوں پرتگال، ہالینڈ اور برطانیہ کے زیرقبضہ بھی رہا ہے، جنوبی افریقہ مئی 1961میں برطانیہ سے نام نہاد آزادی پاکر جمہوریہ جنوبی افریقہ کا درجہ تو حاصل کرگیا لیکن بدقسمتی سے نسل پرستانہ حکومتی پالیسیوں سے چھٹکارہ نہ پاسکا،جنوبی افریقہ کو حقیقی آزادی دلانے کا سہرا نوے کی دہائی میں نیلسن مینڈیلا کے سر جاتا ہے۔ میں اپنے دورہِ جنوبی افریقہ کے دوران کلیدی نوعیت کے شہر کیپ ٹاؤن اور جوہانسبرگ کا دورہ کرتے ہوئے شدید حیرت کا شکار ہوں کہ آج کا ترقی یافتہ جنوبی افریقہ فقط پچیس برس پہلے تک ایک ایسا ظالمانہ معاشرہ تھا جہاں حکومتی سطح پر گورے اور کالوں کے درمیان نسلی امتیازپر مبنی پالیسیاں رائج تھیں، ماضی کی مغربی سامراجی قوتوں کے علمبردار سفید فام باشندے حکومت پر قابض تھے جبکہ دوسری طرف بنیادی حقوق سے محروم مقامی سیاہ فام افراد کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، کالوں کی زندگی کا مقصد گوروں کی خدمت بجا لانا تھا، ستم ظریفی کی انتہا یہ تھی کہ سفید فام افراد کے استحصالی اقدامات کو آئینی تحفظ بھی حاصل تھا ، حکومت وقت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب ملک دشمنی اور غداری تھا۔ ایسے کربناک حالات میں جنوبی افریقہ کے مظلوم باشندوں کیلئے جس شخصیت نے انتھک جدوجہد کا بیڑا اٹھایا اسے تاریخ نیلسن مینڈیلا کے نام سے یاد کرتی ہے، میں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا اس عظیم انسان کو جس نے اپنی زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزار دیئے لیکن نسل پرست حکومت کے آگے سر نہ جھکایا، جس نے اپنی پوری زندگی ان تین اصولوں پر بسر کرنے کیلئے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کردی کہ سب سے پہلے انسان اپنے آپ کو آزاد کرے، ہر قسم کے استحصال اور خوف سے آزاد ہوکر بنی نوع انسانیت کی آزادی کیلئے جدوجہد کرے اور زندگی کا ہر دن خدمت انسانیت میں گزارا جائے۔ نیلسن مینڈیلا جہاں مغربی سامراج کے مخالف تھے وہیں جنوبی افریقہ میں متعارف کرائے گئے ترقی اور فروغِ تعلیم کیلئے حکومتی اقدامات کو سراہنا انصاف کا تقاضا سمجھتے تھے۔ نیلسن مینڈیلا نے معاشرے میں سدھار لانے کیلئے بطور بانی صدر نوجوانوں کیلئے مخصوص ونگ افریقن نیشنل کانگریس یوتھ لیگ کی بنیادیں رکھیں، 1955 میں منڈیلا نے فریڈم چارٹر تحریر کیا کہ جنوبی افریقہ ان تمام سیاہ اور سفید فام باشندوں کا ہے جو یہاں بستے ہیں اور کوئی بھی حکومت اقتدارکے حق کا اس وقت تک دعویٰ نہیں کر سکتی جب تک وہ تما م شہریوں کی مرضی سے تشکیل نہ دی گئی ہو۔ نیلسن منڈیلا کو حکومتی نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف تحریک چلانے پر غداری جیسے سنگین مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کی بنا پر ان کی جماعت افریقن نیشنل کانگریس کو کالعدم قرار دیدیا گیا، سفید فام حکومت نے ایک پرتشدد واقعہ کو جواز بناکرنیلسن مینڈیلا پربغاوت کا الزام لگاکرانہیں ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا، انہوں نے کمرہ عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک ایسے مثالی جمہوریت پسند آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں جہاں تمام لوگ باہمی طور پر امن سے زندگی بسر کریں اور انھیں ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ وہ جمہوریت ، انسانی حقوق اور سماجی ہم آہنگی کے حوالے سے مثبت خیالات رکھنے کی وجہ سے حکومت کیلئے سنگین خطرہ سمجھے جاتے تھے جسکی بنا پر انہیں سزائے عمرقید سنا دی گئی۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن مینڈیلا کو پابند سلاسل کرکے اپنے طور پر نسل پرستانہ ایجنڈے کوآگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن نیلسن مینڈیلا جنوبی افریقہ میں بسنے والے مظلوم سیاہ فام باشندوں کی ایسی زوردار آواز بن چکے تھے جسکی گونج نہ صرف ملک کے چپے چپے بلکہ عالمی سطح پر بھی سنی جارہی تھی، نیلسن مینڈیلا نے اپنے سیاہ فام ہم وطنوں کو اس عظیم جدوجہد میں کامیابی کے حصول کیلئے تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی تلقین کی، مینڈیلا کا ماننا تھا کہ تعلیم دنیا کا سب سے زورآور ہتھیار ہے جس سے سماجی تبدیلی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ نیلسن مینڈیلا کی مخلص کرشماتی شخصیت نے دورانِ قید بھی اپنے ہموطنوں سے ناطہ نہ توڑا اور سیاہ فام باشندوں نے انکی رہائی کیلئے تحریک جاری رکھی جسکے نتیجے میں سینکڑوں جاں بحق اور زخمی بھی ہوئے، قریبی ساتھی اولیور تیمبونے اسی کی دہائی میں نیلسن مینڈیلا کے حق میں منظم مہم کا آغاز کرکے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنا شروع کردیا،بالآخر 1990میں نیلسن مینڈیلا کی سماجی ہم آہنگی ، جمہوریت اور خدمتِ انسانیت کیلئے کی جانے والی طویل جدوجہد رنگ لے آئی، انہیں 27سال قید میں گزارنے کے بعد آزاد فضاؤں میں سانس لینے کی آزادی مل گئی، جنوبی افریقہ میں حقیقی جمہوری نظام حکومت رائج کرکے نسل پرستانہ اقدامات کا خاتمہ کردیا گیا، عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بدلتے ہوئے جنوبی افریقہ میں کثیر النسل حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی،ملکی تاریخ کے پہلے قومی انتخابات میں تمام شہریوں کوبلا تفریق رنگ نسل حق رائے دہی کے استعمال کا موقع فراہم کیا گیا تو نیلسن مینڈیلا کو جنوبی افریقہ میں بسنے والوں نے اپنا پہلا سیاہ فام جمہوری صدر منتخب کرلیا،حکومت سنبھالتے ہی نیلسن مینڈیلا نے کالوں اور گوروں کے مابین اعتمادسازی ، غربت کے خاتمے اور فروغِ تعلیم کیلئے متعدد اقدامات کئے، انہوں نے ملک میں میرٹ کو فروغ دیا ،سفید فام شہریوں کو عوامی عہدوں پر برقرار رکھا، سیاسی استحکام کو یقینی بناتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاروں کوقائل دیا، سماجی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کیلئے نئے آئین کے تحت گیارہ زبانوں کو قومی زبان قرار دیا ،عالمی برادری سے برابری کی سطح پر خوشگوار تعلقات استوار کیے، بعدازاں وہ مدتِ صدارت مکمل کرنے کے بعد ازخود اقتدار چھوڑ کر مینڈیلا فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے فلاحی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہوگئے۔ نیلسن مینڈیلا کو دنیا بھر سے عالمی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا جس میں نوبل امن انعام سرفہرست ہے، حکومت ِپاکستان نے بھی عالمی شخصیات کیلئے مخصوص اعلیٰ ترین نشانِ پاکستان کا اعزاز ان کے نام کیاہے۔
عظیم رہنما کے انتقال کے موقع پر آخری رسومات میں شرکت کیلئے متعدد عالمی شخصیات جنوبی افریقہ میں جمع ہوئیں جبکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے خصوصی دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا۔آج بابائے جمہوری جنوبی افریقہ نیلسن مینڈیلا ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن دنیا بھر میں نیلسن مینڈیلا ڈے مناتا ہرباشعور شخص ان کے اس آہنی عزم کا اعادہ کرتا نظر آتا ہے کہ کسی بھی درپیش مسئلے کے حل کا عملی راستہ مذاکرات، گفت و شنیداور بحث و مباحثہ سے ہوکر گزرتا ہے۔ میں ہمیشہ اپنے بیرونی دوروں کے دوران مختلف قوموں کی تاریخ کا مطالعہ اور حالاتِ حاضرہ کا مشاہدہ کرکے رشک کرتا ہوں کہ آخر ہم پاکستانی اپنے پیارے وطن پاکستان سے بے انتہا محبت کرنے کے باوجود عالمی دنیا سے پیچھے کیوں ہیں، میں آج جنوبی افریقہ کے باسیوں کو خوشیاں مناتے دیکھ کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا پوری پاکستانی قوم کی اجتماعی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔