• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر پاک و ہند کو قدیم انسانی تہذیب یافتہ سرزمین کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں جب انسان سائنسی و علمی ترجیحات کے سہارے پوری دنیا میں اپنی عقل و حکمت کا لوہا منوا چکا ہے، تب ہم جب اس برصغیر پر نظر ڈالتے ہیں تو اپنی تاریخ، تمدن، تہذیب و ثقافت کا حوالہ ہمیں عالم انسانیت میں ایک طرح کا اعزاز بخشتا ہوا نظر آتا ہے۔ بٹوارے کے بعد انڈیا سے آنے والے مسلمان اور پاکستان سے جانے والے ہندوؤں کے رشتے ناتے اسی طرح قائم ہیں کیونکہ انسانی رشتوں، ثقافتی قدروں اور تاریخی تسلسل کو دنیا کی کوئی چیز جدا نہیں کرسکتی۔ موجودہ دور حاضر کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوستان کے گروپ ٹائمز آف انڈیا اور پاکستان کے مشہور و معروف جنگ گروپ آف پبلی کیشنز نے باہمی اشتراک سے ”امن کی آشا“ کے عنوان سے صاحب علم و صاحب قلم ذہنوں کو برصغیر پاک و ہند کی مشترکہ سوچ و ثقافت کے مطابق دعوت فکر دی ہے جو کہ نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے لئے خوش آئند بات ہو سکتی ہے کیونکہ انسان تو بہرحال انسان ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل، کسی بھی مذہب و فکر یا کسی بھی خطہ ارض سے ہو، وہ بہرحال امن، محبت، بھائی چارہ، سکون، سلامتی اور ترقی چاہتا ہے۔پوری دنیا کے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو بھی ہر مذہب کا پیغام امن، محبت اور انسانیت ہی ملے گا۔ قدرت نے ذات انسانی کو نہ صرف زمین پر اپنا نائب بنایا بلکہ اسے عقل و علم بھی عطا فرمایا، ساتھ ہی انسان کو کائنات میں بسنے والی مختلف چیزوں سے روشناس کرایا اور اسے مختلف تجربات سے بھی گزارا گیا تاکہ وہ ایک طرف اپنی حیثیت پہچانے اور دوسری طرف اس میں قوت برداشت اور طاقت مشاہدہ بھی بڑھے لہٰذا کروڑوں سال پہلے کے انسان کو پہاڑی غاروں میں رہنا پڑا، خودرو درختوں اور پودوں کے پتے و بیج، چرند پرند کا گوشت یا جنگلی میوہ بطور غذا دیا گیا، آہستہ آہستہ اس میں شعور ہستی کو بیدار کیا گیا اور آج کا انسان کروڑوں سال کے سفر کے بعد ایک ترقی یافتہ سماج کے جوڑنے میں کامیاب رہا ہے لیکن ارتقائی دور سے آج تک قدرت نے اسے اپنی ہدایات سے بھی نوازا ہے، برے بھلے کی تمیز بھی دی ہے، پھر جب معاشرتی طور پر انسان کو ایک مضبوط دستور زندگی عطا کر کے دین فطرت مکمل کردیا گیا تو ہدایات کا سلسلہ ولیوں، بزرگوں اور درویشوں کے ذریعے جاری رہا۔لیکن جب انسان نے ان تمام ہدایت سے منہ موڑتے ہوئے سرکشی دکھائی تو اسے سخت ترین سزائیں بھی دی گئیں، یہ سزائیں کبھی قدرتی آفات کی صورت میں ملیں، جیسا کہ طوفان نوح یا قوم لوط، عاد و ثمود پر نازل ہونے والی مصیبتیں یا پھر خود انسانوں میں سے ظالم و جابر مقرر کئے گئے جنہوں نے انسان ہوتے ہوئے بھی انسانوں کو برباد کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔ فرعون، چنگیز خان، ہلاکو خان، ہٹلر بھی ایسے ہی عذاب الٰہی کے طور پر گنے جاسکتے ہیں۔ مختلف وبائی بیماریاں جن میں برڈ فلو، سوائن فلو یا …
چند سال قبل آنے والے سونامی طوفان ہوں یا زلزلے یہ سب انسانی سرکشی کی سزائیں ہیں لیکن انسان نے پھر بھی درس ہدایت پر عمل کرنے میں پتہ نہیں کون سی قباحت محسوس کی ہے کہ آج اس جدید دور میں جب انسان شعوری بلندیوں کو چھو رہا ہے، صاحب ہنر و علم کا دعویدار بھی ہے، ساتھ ہی اپنی صلاحیتوں سے سائنسی ترقی میں بہت آگے بڑھ کر پوری دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر چکا ہے تو پھر وہ کون سی شیطانی قوتیں ہیں؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جو اس خوبصورت ترقی یافتہ دنیا کے امن کو تباہ کر کے عالم انسانیت کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہیں ؟؟
یہ لمحہ فکریہ ہے اور اسی کو غور و فکر سے سوچنے، سمجھنے اور مسئلے کا حل نکالنا بھی تو انسان ہی کا کام ہے لہٰذا ٹائمز آف انڈیا گروپ اور جنگ گروپ آف پبلی کیشنز کی یہ دعوت ”امن کی آشا“ برصغیر کے قابل و دانا ذہنوں کے لئے نئی امید کا پیغام لائی ہے۔ یوں بھی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے کئی ناتوں، رشتوں کی ڈور سے جڑا ہوا ہے۔ سب سے بڑا رشتہ دھرتی ماں کا ہے۔ اس کے بعد روحانی رشتہ، خونی رشتے، ثقافتی ناتے ہیں۔ ثقافتی رشتہ انسان کو بھائی چارے کا ماحول دیتا ہے۔ اسی نکتے کو نظر میں رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو برصغیر پاک و ہند ایک ہی ثقافتی تعلق سے وابستہ نظر آتے ہیں، اسی طرح روحانی رشتہ ہے۔ ہندوستان میں موجود اولیائے کرام، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور دیگر کامل ولیوں کے مریدوں اور معتقدوں کی ایک کثیر تعداد یہاں پاکستان میں موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان میں موجود حضرت لال شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت میاں شاہ عنایت رضوی نصر پوری، داتا گنج بخش اور دوسرے بزرگان فیض کے مرید و معتقد بڑی کثرت سے دنیا بھر اور خاص طور پر ہندوستان میں بستے ہیں۔
حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی کے دربار عالی وقار سے وابستہ جناب سید سرور چشتی کراچی تشریف لائے تھے تو ان کی زیارت سے نہ صرف اندرون سندھ بلکہ پورے پاکستان کے ہزاروں لوگ فیضیاب ہوئے تھے۔
اسی طرح سندھ کے روحانی پیشوا حضرت پیر صاحب پاگاڑا سندھ کے مشہور و معروف مخدوم خاندان کے جد اعلیٰ حضرت مخدوم سرور نوح ہالا کے مریدین و معتقدین نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں بسنے والی قائم خانی برادری، ناگوری برادری، رانگڑ برادری اور دیگر برادریوں کے روحانی اور خونی رشتے جیسے پاکستان میں ہیں ایسے ہی ہندوستان میں بھی ہیں، یہاں سندھ سے جانے والے ہندو کمیونٹیز جن میں مہیشوری لویانہ اور دوسری برادریاں شامل ہیں آج بھی اپنے خونی رشتوں کے علاوہ روحانی طور پر یہاں کی درگاہوں سے تعلق رکھتی ہیں جن میں اڈیرو لال، ہنگلاج، بھوانی شنکر، ساڑدرو شامل ہیں۔ ایسے ہی ہندوستان کی سکھ برادری کا گردوارہ ننکانہ صاحب میں ہے۔ اور اس لئے دونوں ملکوں کو امن و محبت کی فضا چاہئے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 72% اور بھارت کی 66% آبادی کی رائے ہے کہ سب سے زیادہ ترجیح امن سلامتی اور بھائی چارے کو دی جائے، نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کی اکثریت بہرحال امن چاہتی ہے تاکہ زندگی پرسکون ہو، ترقی کا عمل تیز رہے، ادب، اخلاق اور انسانی اصولوں کو فروغ حاصل ہو۔
لیکن پھر بھی چند شیطانی ذہن ماضی کی طرح اس ترقی یافتہ صاحب علم سائنسی دور میں بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے انسانیت سے کھیل کر پورے معاشرے کو برباد کر رہے ہیں اور ہم عقل علم اور انسانیت کے دعویدار ہوتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے دونوں ملکوں کے ذہین عالموں، ادیبوں، دانشوروں اور عوام کو باہمی اشتراک سے مل بیٹھنا اور مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ انسانی بقاء کے لئے تمام مکتبہ فکر کے اہل دانش انسانوں کو اکٹھا کیا جائے، بین الاقوامی نوعیت کے کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے، اس لئے دونوں ممالک کی حکومتوں کو ویزا اور دیگر سفری سہولتوں میں آسانی اور نرم روی پیدا کرنا چاہئے تاکہ عالم، ادیب، دانشور آسانی سے میل ملاقات کے لئے آ جا سکیں، انہیں ایک دوسرے کے ملک کے اہم ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی مقامات تک پہنچنے کے لئے آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ وہ تہذیب ثقافت اور تاریخ کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔
آج کل جو خوفزدہ فضا پورے عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں خوفناک ہتھیار بنانے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ تمام تر جوہری ہتھیار موت کا سامان ہیں جبکہ انسانی معاشرہ زندگی چاہتا ہے۔ اگر معاشرہ پرسکون ہو جائے اور خوف ختم کردیا جائے تو پھر ان مہلک چیزوں کی ضرورت ہی نہ رہے اور ہمیں پرسکون اعلیٰ انسانی معاشرے کی تشکیل کر کے زندگی کی محبتوں کا گہوارہ بنانا ہے، نہ کہ زندگی کو جہنم میں دھکیلنا ہے اور یہی نکتہ تمام اہل دانش و حاکمین وقت کی توجہ چاہتا ہے۔

تازہ ترین