ہمارا ادب سے گہرا تعلق ہے۔ وہ ”ادب“ نہیں جیسے لحاظ، وضع داری اور اخلاق وغیرہ کا ایک مجموعی نام دیا جاتا ہے۔ ہم اس ”ادب“ سے منحرف نہیں ہیں، ہمارے اسلاف اس ضمن میں بہت کچھ نام کرگئے اور ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا بس اس شعر کے #
لوگ میرے خلوص کو اکثر
میرا احساس کمتری سمجھے
ہم اس نوعیت کے ”ادب“ کے اس حد تک ضرور قائل رہے کہ جب خطوط لکھتے تھے تو ”حدادب“ پر ختم کرتے تھے یعنی بس ”ادب“ کی حد ختم، اب کھری کھری بات ہونے والی ہے۔
ایسی ہی کھری کھری بات ہم نے دوسری نوعیت کے ادب سے وابستگی کے حوالے سے پڑھی ہے۔ ادبی کتابوں پر تبصرے کا ایک حصہ جوں کا توں پیش خدمت ہے، حدادب۔
”مصنف نے دیباچے میں بعض اخباروں کے ان 16حضرات کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے یہ کالم شائع کئے تھے اس کے علاوہ انہوں نے اپنے والدین، اپنے بھائیوں، بیوی، بچوں اور بہنوئی کا شکریہ ادا کیا ہے، مزید 8/افراد بھی شکریئے کی فہرست میں شامل ہیں، اس طرح مصنف نے 35/افراد کا شکریہ ادا کیا ہے“۔
سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تبصرہ نگار نے ہمارے اسلوب تحریر کو اپنایا ہے جو مناسب نہیں ہے، اس قسم کی گل افشانیاں بس ہمیں زیب دیتی ہیں، ہمارا خاصہ ہیں، انہیں ہمارے لئے ہی مخصوص رہنے دیں۔ اگر اسلوب اس قدر پسند ہے تو بہت بہت ”شکریہ“ بسم اللہ کریں مگر یہ سوچ لیں کہ خامہ فرسائی کیلئے ایسے مواقع روزروز نصیب نہیں ہوتے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں!
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ مصنف کو شکریہ ادا کرنے کا حق کیوں نہیں ہے۔ کتاب مصنف کی، قلم مصنف کا، کتاب مصنف نے خود طبع کی ہے، اس کی مرضی جس کا چاہے شکریہ ادا کرے۔ اس میں طباعت گھر کے مالک کا نام نہیں ہے، بائنڈر کو بھی بھلا دیا ہے مگر ہمیں امید ہے کہ اسی نوعیت کے دیگر نام آئندہ ایڈیشن میں ضرور شامل ہوں گے۔ ہمارے تبصرہ نگار خاطر جمع رکھیں، ان کا نام 36واں ہوگا اور ہم اس فہرست میں 37ویں ہوں گے انشاء اللہ… اسے ہماری پیشگوئی اور حسن طلب دونوں ہی سمجھا جائے۔
اگر کسی صاحب کو ان حضرات کا شکریہ ادا کرنے پر اعتراض ہے جنہوں نے یہ کالم شائع کئے تھے تو یہ بالکل بے جا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ ہماری ہی مثال لے لیجئے، ہمارے اکثر کالم اپنے اسلوب، نگارش، متن اور موضوعات کی وجہ سے کب شائع ہوتے ہیں، ان کے پیچھے ہماری آہ وزاری اور یتیمانہ سج دھج ہوتی ہے۔ اکثر قاری ہمارا کالم پڑھنے کے بعد مدیر صاحب کا نام و پتہ پوچھتے ہیں اور وہ بھی ہم ہی سے، ہم ان کے ارادے بھانپ لیتے ہیں، جواب گول مول کر جاتے ہیں۔ اس پر ہمارا کالم شائع کرنے والے شکریہ ادا کرتے ہیں، ہم جواباً شکریہ کہہ دیتے ہیں۔ اسی قسم کا واقعہ اور کالم نگاروں کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ اس قسم کے شکریئے تو روزمرہ اخلاق کا حصہ ہیں، اس کا ذکر تبصرے میں نہیں کرنا چاہئے، پردہ رکھنا چاہئے۔
والدین کو اپنے شکریہ میں شامل کرنا فرمانبرداری کی علامت ہے۔ اسے کالم نویسی کے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ کالم نویسی مصنف کی ذاتی صوابدید ہے۔ جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو اپنے اعمال اور افعال کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کا گناہ، ثواب والدین سے منسوب کرنا غیر مناسب ہے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کے افعال دیکھ کر عاق کرنے کے اشتہار دے دیتے ہیں مگر سب والدین تو یہ نہیں کرتے۔ ایسا کرنا بھی نہیں چاہئے، ہر عمل کی توبہ ہے، صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ ہی آتا ہے۔
بھائیوں، بیوی، بچوں کے شامل شکریہ کرنا مناسب ہے۔ محبت کے جذبات کے تحت ایسا ہی ہونا چاہئے البتہ بہنوئی کو شامل کرنا غلط ہے، یہ ہم حفظ ماتقدم کے طور پر کہہ رہے ہیں، اگر یہ رسم چل نکلی تو جلد یابدیر ہمارے متاثر ہونے کا خدشہ ہوگا۔ تمام برادران نسبتی کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کسی قول و فعل میں ہم لوگوں کو شامل نہ کریں۔
ہم ممدوح مصنف کی اس ادا پر نثار ضرور ہیں کہ وہ ہر کس و ناکس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم بھی اپنے قارئین کا شکریہ نام بنام کرنا چاہتے ہیں مگر اخبار کی انتظامیہ یہ برداشت نہیں کرسکتی اس لئے ہم مروجہ طریقے سے کہنا چاہتے ہیں کہ اپنے قارئین کا شکریہ نام بنام نہیں ادا کیا جاسکتا اس لئے سب کا مجموعی شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور ان صاحب کا بھی جو کالم شائع ہونے کے بعد دروازے پر پتھر مار کر جاتے ہیں۔