• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس اگرچہ ختم نہیں ہوا ہے ۔ اس کے باوجود یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے انتہائی بااثر اور دولت مند سیاست دانوں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے طویل عرصے تک منظور نظر رہنے والے میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ نے کسی بھی عوامی عہدے کیلئے تا عمر نااہل قرار دے دیا ہے ۔ وہ نہ صرف وزر اعظم نہیں رہے بلکہ کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دے دیا ہے اور وہ آئندہ کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف قومی احتساب بیورو ( نیب ) میں پانچ چھ ریفرنسز بھی دائر ہوں گے ۔ یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے ، جس کا 28 جولائی 2017 ء سے قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
مقدمے کے قانونی اور آئینی پہلووں پر بحث جاری ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اشرافیہ کا احتساب ہوا ۔ قبل ازیں اس سطح کا احتساب نہیں ہوا۔ یہ اس غیر معمولی واقعہ کا روشن پہلو ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ انصاف ہوا یا نہیں ؟ اس بات پر بحث جاری رہے گی ۔ جیسا کہ پاکستانی عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں پر بحث جاری ہے لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو اس طرح وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونا پڑے گا ۔ ان کے خلاف پہلے بھی ان کے سیاسی مخالفین نے عدالتوں سے رجوع کیا اور سب کو یہ پتہ چل گیا کہ عدالتوں سے انہیں زیر نہیں کیا جا سکتا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تو یہ کہتی تھیں کہ میاں محمد نواز شریف کو عدالتوں سے ہمیشہ ریلیف ملا ہے ۔ مگر اس مرتبہ سب کچھ توقع کے برعکس ہوا ہے ۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ کے معزز جج صاحبان اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کے ارکان نے جو کام کیا ، اس پر وہ پوری قوم سے خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ شریف خاندان کیلئے شاید پہلی مرتبہ معاملات قابل انتظام ( Managable ) نہیں رہے ۔
پاکستان کے عوام کو پاناما کیس کے فیصلے نے مایوسی سے نکال دیا ہے اور ان میں یہ امید پیدا کر دی ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کے عفریت کو روکا جا سکتا ہے ۔ پاناما کیس کے ایک فیصلے نے دنیا میں ہمارا مقام بلند کر دیا ہے ۔ عالمی برادری کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے وزیر اعظم کا احتساب بھی کر سکتی ہے ۔ عام لوگوں کا احتساب تو ہمیشہ ہوتا رہا ہے ۔ اب بالائی سطح پر احتساب کا آغاز ہوا ہے ۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے ۔ یہ تاثر ختم ہوگیا کہ بڑے لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا ۔ کسی حد تک یہ تاثر بھی زائل ہو رہا ہے کہ احتساب کے نظام کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے ۔ سات عشروں سے مایوسی کا شکار قوم کو امید کی کرن نظر آئی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سیاست دانوں کا بڑے پیمانے پر احتساب ہوا اور یہ احتساب محترمہ بے نظیر بھٹو تک جاری رہا لیکن اس احتساب کے بارے میں پاکستان کے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ملک کی حقیقی مقتدر قوتیں ملک میں سیاست اور جمہوری جدوجہد کو کچلنے کیلئے اس احتساب کو استعمال کر رہی ہیں اور اس احتساب کی وجہ سے کرپشن میں اضافہ ہوا ۔ لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ مخصوس لوگوں کو اس احتساب کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ مفاہمت کی سیاست دراصل اشرافیہ کو بڑے کرپشن سے بچانا تھا۔ یہ احتساب بلا امتیاز نہیں ہے اور عدلیہ کو بھی اس جانبدارانہ احتساب کے نظام میں استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر پاناما کیس کے فیصلے کو نہ صرف لوگوں نے ماضی سے نہیں جوڑا بلکہ بلا امتیاز احتساب کے بارے میں اپنی توقعات سے جوڑا ۔
میاں محمد نواز شریف کی جگہ وزیر اعظم کون ہو گا ؟ پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس سوال پر غور کیا اور متبادل وزیر اعظم کا نام تجویز کیا ۔ پاناما کیس کے فیصلے سے میاں محمد نواز شریف کی اولاد خصوصاً صاحبزادی مریم نواز کو پارٹی اور حکومت سونپنے کا راستہ بھی بند ہو گیا ہے ۔ اس طرح ایک بڑی سیاسی جماعت میں وراثت کی سیاست ( Dynasty ) کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اب یہ سوچ رہی ہے کہ کسی ایک شخصیت یا اس کی وراثت پر انحصار کئے بغیر سیاسی جماعت کو چلایا جائے ۔ یہ بات دیگر پولٹیکل ڈائے نیسٹیز ( Dynasties ) کے خاتمے میں بھی مدد گار ثابت ہوگی ۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد PPP کی (Dynasty)بھی بیڈ گورننس کرپشن اور میرٹ ختم کسی وجہ سے وہ اپنے سارے اثاثہ کوسمیٹ کے رکھ نہ سکی۔ یہ بھی اس غیر معمولی واقعہ کا ایک اور روشن پہلو ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بلا شبہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ہوا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں یہ پاکستان کے عوام کی بڑی فتح ہے ۔ کرپشن کے خاتمے اور بلا امتیاز احتساب کے نظام کے قیام کیلئے پاکستان کے عوام ، سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف نے طویل جدوجہد کی اور پاکستان کی عدلیہ نے انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا ۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں پاکستانی عوام کی بھرپور شرکت نے عدلیہ کو یہ جرات دی ۔ اب بلا امتیاز احتساب کے نظام کے قیام کا مقصد حاصل کرنے کیلئے احتساب کے اس عمل کو آگے بڑھانا ہو گا تاکہ لوگوں کی امیدیں پوری ہوں ۔ دیگر لوگوں کا بھی ایسا ہی بے رحمانہ احتساب کرنا ہو گا ، جیسا میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کا ہوا ہے ۔ کرپشن نے پاکستان کے ریاستی اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور پاکستانی سماج کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں ۔ طبقاتی تفریق ، غربت اور مایوسیوں میں اضافہ کیا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور سے قبل کرپشن کروڑوں میں ہوتی تھی اور جنرل ضیاء الحق کے دور سے قبل کرپشن لاکھوں میں ہوتی تھی لیکن اب اربوں روپے میں ہوتی ہے ۔ انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ کرپشن کے ذریعے جمع ہونے والا پیسہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے ۔کہا جارہا ہے 200بلین ڈالر باہر جاچکے ہیں اور10بلین ڈالر ہر سال باہر جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی دولت سے دوسرے ملک میں جائیدادیں خریدی جا رہی ہیں ۔ نہ صرف سب لوگوں کا احتساب کرنا ہو گا بلکہ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لانا ہو گی۔
کرپشن میں ملوث لوگوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہئے لیکن قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہئے ۔ کرپٹ لوگوں کو اس وقت تک معافی نہیں ملنی چاہئے ، جب تک وہ رقم واپس نہ کرے ۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کے وفاقی اورصوبائی اداروں خصوصاً نیب ، ایف آئی اے ، ایس ای سی پی ، صوبائی اینٹی کرپشن کے اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا ہو گا اور وہاں خود احتسابی کا نظام وضع کرنا ہو گا ۔ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے ، جو تمام ادارے مل کر پورا کر سکتے ہیں ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ احتساب سے جمہوریت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے ۔عدالت کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم سبکدوش ہوئے لیکن غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت نہیں ہوئی ۔ اس سے لوگوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ احتساب سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی امید کو زندہ رکھنا ہے اور انہیں واپس مایوسی میں نہیں دھکیلنا ہے ۔ اگر وسیع تر اور بلا امتیاز احتساب کا عمل شروع نہیں ہوا تو پھر سازش کی تھیوری کو تقویت ملے گی ۔ لوگ ان خبروں اور آرٹیکلز کے مندرجات پر غور کرنا شروع کر دیں گے ، جو پاناما کیس کے 28 جولائی کے فیصلے سے دس پندرہ دن پہلے غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوئے اور جن میں کہا گیا کہ پاکستان میں نواز شریف حکومت کو گرانے کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے ۔ لوگ مخدوم جاوید ہاشمی کی بات پر سوچنے لگیں گے ، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں عمران خان نے بتایا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کو عدلیہ کے ذریعہ ختم کیا جائے گا ۔
عوام مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعید رفیق کی اس بات کو اہمیت دینے لگیں گے کہ نواز شریف حکومت نے یمن اور قطر کے تنازعات میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کی ، جس کی ہمیں سزا دی گئی ۔ ابھی تک لوگ ان باتوں پر توجہ نہیں دے رہے ۔ لوگ احتساب کا عمل شروع ہونے پر خوش اور پرجوش ہیں ۔ لوگوں کی یہ امید ختم ہوئی تو بہت خطرناک نتائج نکلیں گے ۔ اس وقت سے پہلے بلا امتیاز اور سب کا احتساب جاری رہنا چاہئے۔

تازہ ترین