حضرت اقبال نے فرمایا؎
گو حسینِ تازہ ہے ہر لحظہِ مقصودِ نظر
حسن سے مضبوط پیمانِ وفا رکھتا ہوں میں
ایک سے ایک، تازہ بہ تازہ، نو بہ نو حسین ہر روز نظر گزار ہے۔ حسن دل کو برماتا، نظر کو تراوت، روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ کہ ؎
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
اہلِ دل کیلئے سرمایہِ جاں ہوتا ہے
اگر کسی ایک پھول پر بلبل، ایک رات کی شمع پر پروانہ فدا ہو کر رہ جائے اسی کا وفادار بن رہے تو اگلا دن، اگلی بہار، اگلی رات کیا کرے گا؟ سو شاعر کا دل حسین پر نہیں حسن پر مٹتا ہے۔ رسم و راہ حسین سے مگر وفادار حسن سے ہے جو لازوال، لافانی ہے ہر روز تازہ اور نئے جلوئوں میں ظاہر ہوتا ہوا۔ اس طرح سیاست میں بھی وفاداری اقتدار کے ساتھ ہے، مقتدر سے نہیں۔
شاہجہان بادشاہ تھا سب اس کے نمک خوار، وفادار بیٹے اورنگزیب نے اقتدار ہتھیا لیا تو شاہجہاں کے کسی وفادار کا نام لیجئے کہ جس نے اورنگزیب سے اپنے معزول آقا شاہجہان کو آزاد کر دینے کی سفارش تک کی ہو۔
ایک شام چیئرمین وسیم سجاد کے ہاں چائے پر مدعو تھا۔ انہی دنوں وہ فاروق لغاری کے مقابلے صدارتی الیکشن ہار چکے تھے۔ وسیم سجاد سے اچھی دوستی کے باوجود ووٹ فاروق لغاری کو دیا تھا۔ چیئرمین نے کہا آپ نے فاروق لغاری کو جتوا کہ اچھا نہیں کیا۔ اب سیاست میں توازن نہیں رہ سکے گا۔ بے نظیر وزیر اعظم اسی پارٹی کا فاروق لغاری صدر اور عنقریب وہ اپنا فوجی سربراہ بھی نامزد کریں گے۔ پنجاب کی حکومت بھی ان کے ہاتھ لگ چکی اس لئے اب انہیں کھل کھیلنے کا موقع ملے گا اور برسوں کیلئے سیاست یک رخی ہو جائے گی۔ عرض کیا ایک مجرب نسخہ آپ کے الیکشن جیتنے کا تھا جب وہ نسخہ عرض کیا تو وسیم سجاد حیرت زدہ رہ گئے بولے آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں یہ تو بڑا ظلم ہے۔ اب کیا ہو گا؟ کہا، آپ ذرا بھی فکرمند نہ ہوں سیاست کے غیر متوازن ہونے کا سوال پیدا نہیں ہو گا، مگر وہ تو ہو چکا وسیم سجاد بولے، عرض کیا نہیں بالکل نہیں، آپ زیادہ سے زیادہ چار مہینے انتظار کیجئے، صدر اور وزیر اعظم کے درمیان بڑے تنازعات پیدا ہوں گے، نہیں ہرگز نہیں، صدر کو پَر مارنے کی بھی جرأت نہیں ہے، کہا وہ پَر مارے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ، مگر کیوں؟ چیئرمین نے پوچھا۔ عرض کیا اقتدار کی اپنی نفسیات ہے وہ ہر صورت وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے، مکمل وفاداری ’’ٹوٹل سرنڈر‘‘ بے نظیر اقتدار میں تھیں تو فاروق لغاری وفادار کارکن، اب فاروق لغاری جو بلوچ سردار بھی ہیں58(2)Bکے ساتھ ملک کا صدر بن گیا چنانچہ اب اسے وفاداری چاہئے مکمل وفاداری جو بے نظیر دے نہ سکیں گی۔ اس کے اندر تکبر ہے اور اقتدار کا نشہ بھی اور دوسری طرف بلوچ سردار ہے صدر اور58(2)Bکا ہتھیار بھی۔ وسیم سجاد سن کر کچھ سوچتے ہوئے خاموش ہو رہے، صاف نظر آتا تھا یہ بات لگی تو ہے لیکن زیادہ جچی نہیں، باقی تاریخ ہے اور سب کے سامنے۔
تاریخ جتنی بھی ظالم ہو، اقتدار اس سے بھی زیادہ بے رحم، بے درد ہے۔ اس کی وراثت ہر وراثت سے انوکھی، اس کی اخلاقیات ہر اصول سے ماورا، زیادہ تاریخ کھنگالنے کی ضرورت نہیں کوئی ایک کتاب اٹھا لیجئے، برنی کی تاریخ ہو یا تاریخ فرشتہ، کتنی ملکائوں نے بادشاہوں کے انتقال پر پالنے میں کھیلتے دوچار سال کے بچوں کو جانشین بنوا کے ان کے سروں پر تاج رکھے اور خود مادر ملکہ نے بادشاہ کے نام پر حکومت کرنا چاہی تو ان نابالغ بادشاہوں نے پالنے سے باہر قدم رکھتے ہی اپنے سرپرستوں کی سرپرستی ماننے سے انکار کر دیا اگرچہ وہ ماں ہی کیوں نہ ہو۔ اکثر نے ایسے مائوں کو قید میں ڈالا یا سازش سے قتل ہی کروا دیا۔ کسی مقتدر کو اپنے حکم کی راہ میں رکاوٹ منظور نہیں، وہ لوگ غلطی پر ہیں جو معزول وزیر اعظم کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ ان کے جانشین تادیر ان کے وفادار رہیں گے ایسا پہلے کبھی ہوا نہ آئندہ ہوگا۔
لوگ برامکہ کا انجام بھول گئے مختار ثقفی کا بھی جنہوں نے بنو امیہ سے اقتدار چھین کر بنو عباس کو خلافت دلائی۔ انڈیا میں سید برادران کا انجام بھی کس قدر لرزہ خیز تھا جو اورنگزیب کے بعد بادشاہ گر کہلائے۔ اورنگزیب کے جانشین بزدل، کم ہمت پھر بھی انہوں نے اپنے محسن سرپرست سید برادران کو بے دردی اور سنگدلی سے قتل کر کے راہ سے ہٹایا۔ بے نظیر کے لرزہ خیز انجام نے اس کے نام نہاد ورثا کو اقتدار دلا دیا اور بھٹو کی پھانسی نے کئی عشروں تک پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا حالانکہ کوئی کارنامہ بھٹو کے دفتر میں تھا نہ اس کی وارث بے نظیر کے پاس، پھر بھی ان کے انجام سے پیدا ہونے والی ہمدردی، نااہل اور بدنام ورثا کو بھی پانچ برس تک اقتدار بخشنے اور لوٹ کا مال جمع کرنے کا موقع دے گئی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ قلم وہ لکھ سکے جو نااہل اور معزول وزیر اعظم کے ورثا اس بارے میں بن کہے جو سوچ سکتے ہیں، وہ لکھا نہیں جا سکتا مگر سمجھا جاسکتا ہے بشرطیکہ آپ سیاست اور اقتدار کی بے رحمی اور بے دردی سے کچھ بھی واقفیت رکھتے ہوں۔
اقتدار کے کھیل میں مروجہ اصولوں کو جاننے کیلئے صرف میاں نواز شریف کی زندگی کا مطالعہ ہی کافی ہے، جو جنرل جیلانی، محمد خاں جونیجو سے ہوا، ضیاء الحق اور اسلم بیگ، آصف جنجوعہ پھر غلام اسحاق، فاروق لغاری سے ہوتا ہوا جنرل کیانی سے گزرا، جنرل راحیل پر بیتا اور اب سپریم کورٹ پر گزر رہا ہے۔
اب سیاست کی کیمسٹری بدل گئی ہے نہ اس کی اخلاقیات میں کسی باب کا اضافہ ہوا، آج سے تین ہفتوں کے بعد سارے پاکستانی مکافات عمل بھی دیکھ سکیں گے اور اقتدار کی بدلتی نظریں بھی، احتجاجی جلسے عمران خان اور قادری کے ہوں یا نواز شریف کے وہ حکمرانوں کے آرام میں خلل اور اقتدار میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ طاہر القادری کا ایک دن کا احتجاجی جلسہ شہباز شریف اور وزیر اعظم پر بھاری تھا یا نواز شریف کا سہ روزہ جلوس جس نے ان کی آنکھوں کی نیند اور دن کا چین بھی چھین لیا۔ گو شہباز شریف مسلم لیگ ن میں نواز شریف سے زیادہ مقبول نہیں لیکن وہ اپنے بھائی سے زیادہ عملیت پسند اور اقتدار کے محرکات کو جانتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جس نے نواز شریف کو اقتدار تک پہنچایا۔ انہیں یہ بات ازبر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر اقتدار حاصل نہیں ہوتا، اگر ہوجائے تو برقرار نہیں رہتا۔ خود یہ تین روزہ جلوس سابق وزیر اعظم کی دربدری پر روشن دلیل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ صرف فوج یا سول سروس کا نام نہیں بلکہ اس میں ریاست کے تمام مستقل ملازمین شامل ہیں خواہ وہ معمولی باغبان اور کلرک ہوں، اسکول ٹیچر، پولیس کانسٹیبل یا فوج کا سربراہ، صوبے کا چیف سیکرٹری، عدالتوں کے جج، ملک کے گورنر اور صدر مملکت، ان سب کے ملنے سے اسٹیبلشمنٹ ترتیب پاتی ہے۔ وقت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی باگ ڈور مختلف ہاتھوں میں آتی اور جاتی رہی مگر اس کے طور اطوار، طریقہ کار اور اثر و محفوظ ہمیشہ ایک سا رہتا ہے اس کی باگ گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھ میں ہو یا صدر غلام اسحاق خاں، ایوب خان کے پاس ہو یا ضیاء الحق کے ہاتھ، یہ مستقل ادارہ ہے پارلیمنٹ اس کے اندر اجنبی ہے، (فارن باڈی) اس سے خود اسٹیبلشمنٹ کے اندر فٹ ہونا ہے، فٹ نہ آئے تو اسے اسی طرح نکال باہر کیا جاتا ہے جس طرح ہم آنکھ میں پڑنے والا ذرہ یا پتلی کا ٹوٹا ہوا بال نکال باہر کرتے ہیں۔ پورے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ معزول وزیر اعظم کے وزیر اعلیٰ بھائی اور نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے یہ آخری رعایت ہے جو انہیں حاصل ہوئی اور ہونا بھی چاہئے تھی آخر ہر کوئی اتنا طوطا چشم نہیں ہوتا کہ اپنے محسن کو ’’آن کی آن،،بھول جائے جس قدر کہ موصوف کا طریقہ تھا۔
وفا اقتدار سے ہے مقتدر سے نہیں، اب اقتدار کی رسی خاقان عباسی اور شہباز شریف کے درمیان تنی رہے گی۔