• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ گیلری سے۔۔کلثوم نوازکےکاغذات کی منظوری سےن لیگ کامورال بلندہوگا

اسلام آباد(فصیح الرحمان خان)ستمبر کے ضمنی الیکشن کیلئےبیگم کلثوم نواز کےکاغذات نامزدگی کی منظوری،قائمقام پارٹی صدرکی تقرری مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کامورال اونچا کرنے کےمعمولی اوراور علامتی عوامل ہیں۔ گزشتہ ماہ کےپامانافیصلےکے شدیددھچکے کےبعد ان پیشرفتوں سے یقینًا انہیں کچھ سکھ کاسانس آیااوروہ بھی ایسےمیں جب انکے سیاسی حریف اپنے منظم حمایت کرنیوالوں  کی خاموش رضا مندی سےانکے خلاف قوت جمع کررہےہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 5سالہ سیاسی ٹیسٹ میچ جو 2013ء میں شروع ہواتھا ،آئندہ گرمیوں میں شیڈول کے مطابق ختم ہونےکیلئےون ڈے  میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ اگرچہ تحریک انصاف اور اسکےاتحادی اسے رواں سال اکتوبر، نومبر تک کاٹی 20 بنانا چاہیں گے لیکن موجودہ صورتحال کےپیش نظر ایسا ہوتانظر نہیں آتا کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں قبل ازوقت الیکشن کیلئےتیار نہیں ہیں ،یہی حال مسلم لیگ ن کی مرکزی ، پنجاب اور بلوچستان حکومت کابھی ہے۔

واحدناقابل پیش گوئی عنصر جیسےچھوڑابھی  نہیں جاسکتا وہ مسلم لیگ ن کی نئی حکومت کے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سےتعلقات اور ان میں توازن کا ہے۔کئی چیزیں اس اہم عنصر پر منحصر ہیں اورطاقت کی راہداریوں میں ہر بڑاکھلاڑی اس بین حقیقت سےآگاہ ہے۔ یہ سب سامنے رکھتے ہوئے سپیکر ایاز صادق اس روز ذراآرام باش نظر آئے۔ مسلم لیگ ن کے اندرونی فیصلہ سازوں میں سے کچھ خاص طورپربڑے میاں صاحب ، سپیکر ایوان زیریں میں چیزیں معمول پر لانےاورپاناما کیس کے نتائج سے جان چھڑانے کی اہمیت جانتے ہیں۔ صف اول کے وزراء اور اپوزیشن رہنما بھی سیاسی ماحول اورموجودہ حالات کا ادراک رکھتے ہیں۔

جمعرات کے روز ایک ماہ وقفے کے بعد اسمبلی سیشن  میں وزراءکو روز مرہ امورمیں مشغول دیکھا گیا جومعمول پر لوٹتے ہوئے آپس میں مسکراہٹوں اور قہقہوں کا تبادلہ کررہےتھے۔ان میں ایک بے جوڑ موجودگی جو آج کل باقاعدگی سے دیکھی جارہی ہے وہ سابق وزیر داخلہ چوہدر ی نثار کی ہے۔ قائد ایوان کی نشست کے بائیں جانب دوسری سیٹ پر براجمان چوہدری نثار گرےضرورہیں لیکن ہارے نہیں اورنہ ہی انہیں کسی نے نکالاہی ہے۔وہ یہ سوچ کر وفاقی کابینہ کاحصہ نہ بنےکہ ستمبرمیں  وزیر اعلیٰ شہباز شریف منصوبےکےمطابق اقتدار میں آجائینگے،ایسا نہیں ہوا اور اسکی وجہ پنجاب جہاں 2018ء کے الیکشن میں میدان سجے گاپرگرفت ڈھیلی نہ چھوڑنے کی سیاسی مجبوری بتائی گئی۔

2018ء کے الیکشن جیتنے کے بعد شہباز کے وزیراعظم بننے کامعاملہ بھی اس وقت تک زیر التواء ہے جب تک شریف خاندان میں اقتدارکا نیا فارمولا طے نہیں پاجاتا۔ اسی سے مریم نواز اور حمزہ شہباز کے مستقبل کی سیاست میں کردار کا تعین ہوگا۔یعنی بچےہم اور چوہدری نثار جو چہرے پردلیری  ظاہرکرنےکی کوشش میں لگےہیں اوربڑے میاں صاحب سے اپنےمسلسل اختلافات جن میں جی ٹی روڈ مارچ سرفہرست ہے کی خبریں لیک کرنےکیلئےذرائع پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ سردار یعقوب ناصر کے عبوری پارٹی سر براہ چنے جانے پر تحفظات ایسے میں قابل نظر انداز ہیں جب پوٹھوہار کے چوہدری کو یقین ہےکہ انکے پکے دوست شہباز شریف آئندہ ماہ اپنامرغوب عہدہ سنبھال لیں گے ۔

یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پچھلی صفوں میں رہنےوالےوزراءبھی اپنا کھویا اعتماد بحال کررہے ہیں۔ انکے کچھ ساتھی عباسی کی کابینہ میں شامل کئے جاچکے ہیں جبکہ باقی قسمت کی دیوی مہربان ہونے کے انتظار میں 2018ء کا انتظار کرینگے۔ پاناما کے معاملے پر سیاست کمزور ہورہی ہے تو ایسے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کےسامنےمسائل کے ایک ایک کر کے میرٹ پر حل کرنےکا مشکل مرحلہ کھڑا ہے۔پاناما کیس نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ہفتوں اور مہینوں  کیلئےایک غیر فطری اتحاد میں باندھ دیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کا بل اگرچہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاہم اس میں عوام کو کوئی خاص دلچسپی نہیں لہٰذا صرف چند شرسرخیوں میں بات نمٹ جائیگی لیکن یہ سب کچھ ایک کامیاب جی ٹی روڈ پاور شور کےبعد ہو رہاہے جونکالے گئے وزیراعظم نواز شریف جنہوں نےمرکز میں اپنی حکومت مستحکم کرنے اور پھر پارلیمانی پارٹی کو ساتھ رکھنے کے بعد سیاسی مخالفین کی مہم جوئی کے دوران کیا۔

آئندہ نیب مقدمات کے خطرات میں گھرے نواز شریف کی جی ٹی روڈ شو کے بعد سیاسی بحالی اس قدرتیزرفتارتھی کہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی ، شیخ رشید کا ٹرائیکا اب بھی اسکے اثرات زائل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہااورخاص طور پر ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیاپر پراپیگنڈا میں مصروف ہے۔لیاقت باغ میں شیخ رشید اور تحریک انصاف کا شوہر لحاظ سے مایوس کن تھا۔مزید برآں انہوں نے مسلم لیگ ن کی سرگرمی کے گزر جانے کاانتظاربھی بے فائدہ کیا۔ گزرے سالوں کی مسلم لیگ حتیٰ کہ مسلم لیگ ن کی بھی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے باعث بڑے پیمانے پر کارکنوں کےچھوڑ بھاگنے کے حوالے سے سیاہ تاریخ ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال بےمثل ہےجو ماورائےآئین اقتدار یا جس میں سربراہ مملکت59(2)bکےاسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کے زورپرحکم چلاتا ہے سےبہت مختلف ہے۔

اب پارلیمنٹ میں بڑے سیاسی کھلاڑی تسلسل اور حکومتی مدت کی تکمیل چاہتے ہیں اور بیگم کلثوم نواز کی قومی اسمبلی میں متوقع آمد اس حوالے سے اہم استعارہ ہو گی۔ وہ اقتدار کی بساط پرنواز شریف کی آنکھیں اور کان بنیں گی۔ اس طرح دیکھاجائےتوانکےکاغذات نامزدگی کی منظوری شریف خاندان اور انکے قریبی حلقے کیلئے اطمینان کا باعث بنی جبکہ ان میں سے بعض  کو پہلےبھی یقین تھااوراب بھی ہےکہ  بعض پوشیدہ عناصر انہیں الیکشن لڑنے سے روکنے کیلئےایک اورسازش کا جال بن رہے ہیں اورایسا ہو تو بڑے میاں صاحب کو شدید دھچکا لگے گا جوآئندہ ماہ پارٹی الیکشن کی راہ ہموار کرتے ہوئے پارٹی صدارت بھی چھوڑ چکےہیں۔گزشتہ ماہ کے سپریم کورٹ کے فیصلے سےنواز شریف نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائےگئےبلکہ وہ پارٹی عہدے کیلئے بھی نا اہل ہو گئے۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ شخص جواب بھی غیر سرکاری طور پر پارٹی اورحکومت چلا رہےہیں باقاعدہ طور پر ایسا نہیں کر سکتے۔

سردار یعقوب ناصر عبوری طور پر اس عہدے پر رہیں گے تاوقتیکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پارٹی سنبھالیں گےلیکن بیگم کلثوم نواز کا این اے 120لاہور سے الیکشن اب علامتی سےآگے کی بات بن چکی ہے۔ یہ شریف  خاندان کا مضبوط حلقہ ہے،نواز شریف 1985ء سے 2013ء تک اس حلقے سے کامیاب ہوتے آئے ہیں ۔اس دوران 2002ء میں وہ جلا وطن میں تھے  اور 2008ء میں اس کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔ لیکن ان دونوں انتخابات میں انکے نامزد امیدوار نے باآسانی کامیابی حاصل کی۔

شریف خاندان ایک اور کامیابی حاصل کرنے جا رہاہے لیکن تحریک انصاف اور اس کے منظم حمایت کرنےوالےمسلم لیگ ن کی اکثریت کوکم کرنا چاہیں گےاورخاص طور پر جی ٹی روڈ پر کامیاب پاورشو کےبعدجس سے مسلم لیگ ن کے ووٹروں بھائیوں اور منتخب نمائندوں کالڑ کھڑاتا مورال اونچا ہوا۔حالات سے لگتا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی مدد کرنے والےریفرنسنرکےحوالے سےہرموقع کا فائدہ اٹھانےکیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہےہیں جو شریف خاندان کیخلاف دائر کرنے کیلئے نیب کو ہدایات دی گئی ہیں۔

اس بار منصوبہ سازوں نے ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی  جماعت متعارف کرائی ہے جو بنیادی طور پر جماعت الدعوۃ کی ہی ایک شاخ ہےتاکہ اس حلقے میں دائیں بازو کی جانب  رحجان رکھنے والی مسلم لیگ ن کو ایک مخصوص فرقےکے ووٹ بینک سے محروم کیا جائے۔ایسے مزیداقدامات اور شعبدےپائپ لائن میں ہیں اوربہت سی سیاسی دلچسپیاں سامنے آنے کو ہیں۔

تازہ ترین