کراچی (نیوز ڈیسک) آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا دوسرا جائزہ مکمل کر لیا ہے جس سے پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی فوری قسط کا اجرا ہوسکے گا اور اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ملنے والی مجموعی رقم 3 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
اسٹینڈ بائی پروگرام کے تحت دوسرے اور حتمی جائزے سے پاکستانی حکام کی مضبوط ترپالیسی کوششوں کی عکاسی ہوتی ہے جس سے پاکستانی معیشت کے استحکام کو مدد ملی ہے اور کچھ ترقی بحال ہوئی ہے۔
مسلسل بیرونی حمایت ضروری ہوگی، انسداد بدعنوانی کے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا، وفاقی اخراجات میں تحدید ہوئی، طویل مدتی شمولیتی ترقی اور رزوگار کے لیے ساختیاتی اصلاحات تیز کرنا ہونگی۔
توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ ٹھہر پایا، اسٹیٹ بینک نے سخت زری پالیسی کا موقف اپنایا، ریاستی کنٹرول میں چلنے والے کاروباری اداروں کو نئے پالیسی فریم ورک میں لانا ہوگا، گورننس کو بہتر بنانا ہوگا۔
پاکستان کو استحکام سے مضبوط اور پائیدار بحالی میں لے جانے کےلیے حکام کو اپنی پالیسی اور اصلاحاتی کوششوں بشمولی مالی اہداف پر سختی سے عملدرآمد کو بھی جاری رکھنا ہوگا اور زد پذیر( طبقات) کو بچانا بھی ہوگا۔
منڈی کی بنیاد پر شرح مبادلہ رکھناہ وگی ایسی شرح مبادلہ جو بیرونی دھچکے برداشت کر سکے اور ساختیاتی اصلاحات کو وسیع تر کیا جائے تاکہ مزید طاقتور اور شمولیتی ترقی کو ممکن بنایا جاسکے۔
آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ 12 جولائی 2023 کو ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے لیے 9 ماہ کلے یے منظور کیے گئے اسٹینڈ بائی پروگرام نے پاکستان کو اپنے اندرونی اور بیرونی عدم توازن سے نمٹنے اور باہمی و کثیرالطرفین پارٹنرز سے مالی معاونت کیلیے فریم ورک دینے کے لیے ایک پالیسی سہارا ( اینکر ) دیا۔
اس پروگرام کا فوکس مندرجہ چیزوں پر تھا ایک تو مالی بجٹ 2024 کے نفاذ کے ذریعے ضروری مالی ایڈجسٹمنٹ ہوسکے اور قرض کا استحکام برقرر رکھا جاسکے اور دوسرا یہ کہ ضروری سماجی اخراجت کو تحفظ دیاجاسکے۔
تیسرے بیرونی دھچکوں کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے اور منڈی کی موزوں قوتوں کے ذریعے زرمبادلہ کی واپسی ممکن ہوسکے۔ چوتھی چیز سخت زری پالیسی برقرار رکھتے ہوئے مہنگائی کم کرنا اور ساختیاتی اصلاحات کے ذریعے ترقی کو بڑھنا اور توانای کے سیکٹر کے قابل عمل رہنے پر، ریاستی کنٹرول میں چلنے والے کاروباری اداروں کی گورننس اور ماحولیاتی برداشت کو برقرار کھنا شامل تھا۔
اس کے نتیجے میں کلاں معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں اور ترقی کی شرح 2 فیصد ہوگئی ہے جو کہ مسلسل دوسرے سال میں ہونے والی بہتری ہے۔ مالی صورتحال بدستور مضبوط ہورہی ہے۔