• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق ہمارے ملک میں آبادی 21کروڑ سے بڑھ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بعض نادان دوستوں کے لئے یہ خوشی کی خبر بن جائے کہ ہم نے پاکستانیوں کی اتنی بڑی فوج تیار کرلی ہے اور وہ بھی ایسے ہی جشن منائیں جیسے JIT بننے پر نواز شریف اور ان کی پارٹی نے منایا تھا۔ لیکن جب اس بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق تمام لوگوں کو صحیح آگاہی ملے گی تو جلد ہی ان کی خوشی کافور ہو جائے گی۔
آبادی کے اعداد و شمار کے مطابق 1998سے لے کر اب تک ملکی آبادی میں 7کروڑ 87لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ کراچی کی آبادی بڑھ کر ایک کروڑ 70لاکھ اورلاہور کی بڑھ کر ایک کروڑ 20لاکھ ہو چکی ہے۔ آبادی بڑھنے کی شرح 60فیصد ہے۔ 18برس میں اسلام آباد میں یہ آبادی 162فیصد کے حساب سے بڑھی ہے جبکہ لاہور میں اس کا تناسب 90، کراچی میں 74، کوئٹہ میں 182اور پشاور میں 100فیصد ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اس قدر تیز اضافے کی وجہ کیا ہے؟ کیا ملک میں آبادی کے بڑھنے کے لئے تدارک کے تمام تر منصوبے ناکام ہوگئے ہیں؟ کیاحکام نے صرف یہ سوچا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر فنڈز بھی جیبوں میں ڈال لئے جائیں اور اس عفریت کو نہ روکاجائے؟ اگر آبادی اس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے تو ظاہر ہے کہ ان پیدا ہونےوالے بے پناہ انسانوں کےلئے صحت، روزگار، پانی، خوراک، زراعت اور تعلیم کے منصوبے بھی بنانا پڑیں گے۔ ہم آئے دن یہ نعرے تو لگاتے رہتےہیں کہ ہم جلد ایشین ٹائیگر بننے والے ہیں لیکن نامساعد حالات، ابتر معاشی صورتحال، امپورٹ کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور ایکسپورٹ میں گراوٹ کے ساتھ ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اس بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کوئی کام کے منصوبے بنانے تو درکنار ہم ان کے صرف منہ بھرنے کے لئے بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ نتیجہ وہی ہے جو پچھلے دنوں بعض اخباروں میں چھپنے والی ایک تصویر سے ظاہر ہے جس میں ایک سبزی منڈی میں گلے سڑے پھل چنتے پچاس ساٹھ کے قریب ننگ دھڑنگ بچے دکھائے گئے ہیں جو خوراک کی تلاش میں یہاں مارے مارے پھررہے ہیں۔
اس بڑھتی ہوئی آبادی کا ہی اثر ہے کہ منصوبے خواہ امن و امان کے ہوں، تعلیم کے، صاف پانی پہنچانے کے یا صحت کے، سبھی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ امن و امان کے حوالے سے ہمارے پیارے خادم اعلیٰ کے حکم کے تحت آئے دن پولیس مقابلے کرکے مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچادیا جاتا ہے لیکن ایک ناخواندہ، بھوکی، بپھری اور نوکریوں کی طرف سے مایوس مخلوق کو آپ کس وقت تک جرم سے باز رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ مجرموں کی بیخ کنی کرنے کے لئے پولیس مقابلے بھی کروالیں تو بھی آپ کتنے ماریں گے؟ آنے والے دنوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔
مایوسی کے اس اندھیرے میں ان میں سے بہت سے منشیات کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً ایک کروڑ افراد اس لت میں پڑے ہوئے ہیں۔ سڑک کنارے بھیک مانگتے، نشہ کا شکار ان افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان کی بحالی کے لئے اگرچہ بعض NGO's کام کر رہی ہیں لیکن وہ بھی بے بس ہوچکی ہیں۔ سرکاری کھاتوں میں ورکشاپوں کے اہتمام کا ذکر تو بہت آتا ہے لیکن اس عفریت کو قابو کرنا بھی اب بس سے باہر ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار حسین جو انسداد ِ منشیات کی مہم کے کنسلٹنٹ ہیں، کے بقول سرکاری طور پر منشیات پر قابو پانے کے لئے کوئی فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ یہاں بھی حکومت کا خیال شاید یہی ہے کہ میٹرو ٹرینوں اور بسوں کے جال بچھائے جائو اور باقی کاموں کوبھول جائو۔ ایسے کرنا گندگی پر صاف ڈھکن لگا دینے کے مترادف ہے۔ گندگی بڑھے گی تو یہ ڈھکن بھی پھٹ کر الگ ہو جائے گا لیکن اس وقت تک موجودہ حکمران اپنے پیسے بنا کر الگ ہوچکے ہوں گے۔
اسی طرح کے ناکام ہوتے ہوئے منصوبوں میں لاہور میں ایک منصوبہ پانی کے حوالے سے ہے اور دوسرا ٹرانسپورٹ کے حوالے سے۔ لاہور میں شروع کی جانے والی اسپیڈو بس کا منصوبہ بھی بری طرح ناکامی کا شکار ہورہا ہے۔ منصوبہ شروع کرنے والے صاحبان نے شاید سنگاپور کا دورہ کرکے اس طرح کا منصوبہ شروع کرنے کا پلان بنایا تھا جو سفر کے لئے دو سو روپے کے کارڈ خریدنے کے اشتہارات پر بھی لاکھوں روپے خرچ کرڈالے۔ اب اگر عوام کی اکثریت کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں، وہ پڑھے لکھے نہ ہو ،ںانہیں کارڈ کی خرید و فروخت کے حوالے سے جدید نظام کا پتا ہی نہ ہو تو بھاڑ میں گئے ایسے منصوبے۔ اس پر لگنے والے پیسوں پراب سالانہ 2ارب 8کروڑ روپے کانقصان ہو رہاہے۔ پتا نہیں کس بے وقوف نے اس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ بناکر کروڑوںروپے ضائع کئے اور نامعلوم کیسے جناب خادم اعلیٰ صاحب نےاس منصوبے کی اجازت دی۔ دوسرا مسئلہ جس کا میں نے ذکر کیا وہ پانی کا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے پانی کا مہیا کرنابھی ایک دردِ سر بن گیا ہے۔صرف لاہور شہرمیں پانی کی سطح انتہائی درجے نیچے جاچکی ہے۔ ایسے میں لگائےگئے ٹیوب ویلوں کی کارکردگی اب نصف رہ گئی ہے۔ گلبرگ، گارڈن ٹائون، تاج باغ اور بہت سے دوسرے علاقوں میں پانی اب دو کیوسک کے بجائے صرف ایک کیوسک آرہا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ اور خراب صورتحال پیدا کرے گا۔ ایسے میں حکام کیا کریں گے؟
تعلیم اورصحت کا تو ذکر ہی کیا۔ میںاپنے پچھلے بعض کالمو ںمیں ذکر کرچکا ہوں کہ صحت کا یہ حال ہے کہ ہمارے ہاں کروڑوں بچے دماغی طور پر انتہائی کمزور رہ جاتے ہیں جن کی تعداد اور بڑھے گی۔ ان کے امراض میں اور اضافہ ہو گا۔ ایسے میں ان کی تعلیم کا ذکر ہی کیا۔ سرکاری اسکولوں کا حال بیان سے باہر ہے۔ یہی لوگ آگے چل کر قوم اور ملک کی قسمت بنائیں گے اور کیا بنائیں گے؟
کالم کی دم:عزیز دوست اصغرندیم سید کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ شاید میں اپنے کالموں میں مذکورہ ڈائریکٹر کی صحیح دُھلائی نہیں کرسکا جس بناپر انہوں نےان کی بنائی نئی فلم دیکھنے کا ارادہ کرلیا۔ خود ان کے بقول انہوں نے ’’چین آئے نا‘‘سے زیادہ بیہودہ اوربکواس فلم آج تک نہیں دیکھی۔ ایسا ہی حال آصف فرخی صاحب کا ’’پھوک اسٹوڈیو‘‘ کے نئے سیزن کے گانے سن کر ہو رہا ہے۔ ترانے کا جو بیڑہ غرق ان نئے موسیقاروں نے کیا ہے اس سے زیادہ برا مہدی حسن صاحب کی ’’رنجش ہی سہی‘‘ کا کیا ہے۔ لیکن بھائی آج کل کے میوزک بینڈ سے آپ اس کے علاوہ توقع ہی کیاکرسکتے ہیں۔

تازہ ترین