حال ہی میں ہماری حکومت نے تمام جامعات کے ترقیاتی بجٹ میں ساٹھ فیصد کمی کرکے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو ایک مہلک مالی دھچکا پہنچایا ہے۔2016-2017میں پاکستانی جامعات کو مختص کیا جانے والا اصل بجٹ21.48 ارب روپے تھا لیکن اس میں سے صرف8.42 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی۔ فنڈز کو تعلیم کےبجائے بس اسکیموں کے منصوبوں پر خرچ کر دیا گیا اور پاکستانی جامعات کو قابل رحم حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ اب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ جامعات میں ادھوری تعمیر شدہ عمارتیں فنڈز کے انتظار میں کھڑی ہیں اور ٹھیکے دار وائس چانسلرز کے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہ رقم 2004میں اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کی جانے والی رقم سے بھی کم ہے اور یہاں تک کہ یہ ماضی میں پی پی پی کی حکومت کی جانب سے مختص کردہ رقم سے بھی کم ہے۔ اس مایوس کن صورت حال میں پروفیسر مختار احمد کی ایچ ای سی کو ترقیاتی فنڈز کی کمی کے باوجود تباہی سے بچانے کیلئے کی جانے والی کوششیں ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے جو وعدے کئے گئے تھے اُن کی روشنی میں یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث ایچ ای سی کے کئی اہم منصوبے بند ہو چکے ہیں جو کہ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ان میں سے سب سے اہم منصوبہ جامعات کے لئے اساتذہ تیار کرنا تھا جس کے تحت ہمارے نوجوانوں کو دنیا کی اعلیٰ درجے کی جامعات سے تربیت دلوانا تھا۔2008میں ایچ ای سی ایک ہزار طلبا کو سالانہ بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے اور خاص طور پرPh.Dکے لئے وظیفے دیکر بھیج رہی تھی تاکہ انتہائی تربیت یافتہ اساتذہ پر مشتمل فیکلٹی تشکیل دی جا سکے اور اساتذہ اور طلبا کی شرح جوکہ ایک Ph.Dاستاد پر 130طلبا (1:130)ہے اس کو کم کرکے 1:20کے تناسب تک پہنچایا جا سکے۔ تاہم ان حالا ت کی بنا پر یہ بیرون ملک تربیتی پروگرام تباہ ہو چکا ہے۔ اس کا اندازہ اس طرح لگا لیں کہ گزشتہ مالی سال میں صرف 250طلبا کو بیرون ملک بھیجا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مزید پچاس نئی جامعات کے قیام کے بعد یہ صورت حال مزید ابتر ہو چکی ہے کیونکہ تربیت یافتہ اساتذہ کی فراہمی کے بغیر جامعات کی تعداد میں اضافہ قوم کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس طرح عوامی اجتماعات میں بڑے بڑے نعر ے لگا کر عوام کے ووٹ حاصل کرنا اور تعلیم کی پشت پناہی کا مصنوعی تاثر دینے کے نتیجے میں تعلیم کا معیار کم ہوگا اور ایسا سماجی نظام قائم ہوگا جس میں لوگ اہلیت اور قابلیت کے مطابق اختیارات اور مقام حاصل کرنے سے محروم رہ جائینگے۔
2003 ء سے 2008ء کے دوران اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہونے والی تیزی سےترقی کی بدولت ہماری کئی جامعات Times Higher Educationکی درجہ بندی میں دنیا کی 300، 400، اور 500 صف اول کی جامعات میں شامل ہو گئی تھیں۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران مسلسل تنزلی کے باعث، Times Higher Educationکے مطابق اب ہماری ایک بھی جامعہ دنیا کی500 صف اول کی جامعات میں شامل نہیں ہے۔ 2008ء میں نسٹ 376ویں نمبر پر تھی، اب یہ بھی زوال پذیر ہے اور2016 ء میں اس کا نام گرکر 500 سے 550 کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ ابتری کے اس حال پر پردہ ڈالنے کے لئے دنیا کی درجہ بندی کے بجائے ایشیا کے ممالک میں ہماری جامعات کی درجہ بندی ظاہر کر دی جاتی ہے لیکن اس طرح سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ 2008ء کے بعد سے ہماری تمام جامعات تیزی سے روبہ زوال ہیں اور بہتری کی کوئی علامت نظر نہیں ا ٓرہی۔ اس کی اہم ترین وجہ حکومت کی حمایت حاصل نہ ہونا ہے۔ صورت اتنی خراب حال ہے کہ پاکستان کی تمام جامعات کا کل بجٹ ایشیا کی صرف ایک اچھی جامعہ مثلاً نیشنل جامعہ سنگاپور کے بجٹ کا بھی ایک تہائی ہے۔
فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کی تباہی کے ساتھ پاکستانی جامعات کے بین الاقوامی پیٹنٹ میں بھی واضح کمی مشاہدے میں آئی ہے، اس کی وجہ سے بھی جامعات کو دی جانے والی امداد میں کمی اور ایچ ای سی کی جانب سے پیٹنٹ کی فیس کی ادائیگی نہ ہونا ہے۔ 2015میں فائل کئے جانے والے تیرہ پیٹنٹ کے مقابلے میں2016میں صرف ایک بین الاقوامی پیٹنٹ (USPTO)فائل کیا گیا ہے، اس سے بحران کی صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ بجٹ کی مشکلات کی وجہ سے تحقیق کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ایک سال پرانے ایچ ای سی کو جمع کروائے جانے والے تحقیقی منصوبے ابھی تک منظوری کے منتظر ہیں۔ محققین کو نازک اور حساس سائنسی آلات تک مفت رسائی کا منصوبہ بھی (تجزیے کی مدمیں خرچ کی جانے رقم ایچ ای سی کو ادا کرنی ہوتی ہے) تباہی کا شکار ہے اور اس پروگرام کے تحت کئے جانے والے تجزیات کی تعداد میں نوے فیصد کمی آئی ہے۔ 2005ء میں شروع کئے جانے والے ڈیجیٹل لائبریری پروگرام کے تحت25000بین الاقوامی تحقیقی جرائد اور 65000 درسی کتب تک مفت رسائی کا معاملہ بھی سکڑ رہا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایچ ای سی کے اور بہت سے منصوبے بھی بری طرح متاثر ہو رہےہیں۔
یہ مسائل سندھ اور پنجاب میں صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد مزید گمبھیر ہو گئے ہیں اور تین HECانتظامیہ کے درمیان انتظامی امور کی رسہ کشی نے انتشار کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اعلیٰ تعلیم بین الاقوامی طور پر ایک قومی موضوع ہے، اس کی وجہ قومی تعلیمی معیار کو برقرار رکھنا، ڈگریوں کی بین الاقوامی برابری کو طے کرنا، معیار کو یقینی بنانا اور قومی منصوبہ بندی میں اس کا اہم کردار ہے۔ صوبائی ایچ ای سی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قائم کی گئی ہیں۔ میری جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم وفاق کا حصہ ہے اور آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے مطابق اس کو صوبوں کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ صوبوں کو کالجوں کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے چاہئے، بجائے اسکے جامعات کو چلانے کیلئے نئے HECتشکیل دئیے جائیں۔ اس مسئلے کو سلجھانے کیلئے میں نے فروری2013ء میں سندھ ہائیکورٹ میں صوبائی ایچ ای سی کے قیام کیخلاف ایک پٹیشن دائر کی تھی۔
لیکن بدقسمتی سے ساڑھے چار سال گزرنے کے بعد بھی سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کو اس کیس کو قومی مفاد کوسامنے رکھتے ہوئے ترجیح دینا چاہئے تھا جبکہ سپریم کورٹ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو وفاقی نوعیت کا ہونے کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے اس فیصلے کا احترام کیا جانا اور اس کو نافذ کیا جانا چاہئے۔
پاکستان میں2003ء سے2008ء کے دور کو اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور کہا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ بھارتی وزیراعظم کے سامنے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے حوالے سے ایک تفصیلی میٹنگ ہوئی جو کہ بھارت کے بڑے اخباروں نے نمایاں طور پر شائع کی اور ہندوستان ٹائمز کی سرخی یہ تھی ’ہندوستان کی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘۔ انڈیا کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ دشمن تو خود ہمارے درمیان موجود ہیں۔ دراصل ملک کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اُس ملک کی تعلیم کو تباہ کردیا جائے تاکہ اس کے نوجوان نہ اُبھر سکیں۔
میں اپنی تحریروں میں پاکستان کو علمی معیشت میں تبدیل کرنے کی اہمیت پر مسلسل زور دیتا رہا ہوں، یہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم غربت اور تباہی کے اندھیرے سے باہر نکل سکتے ہیں۔ وزارت مالیات کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتی ایچ ای سی کےمختلف پروگراموں پر ایک کاری ضرب ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کو اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں سماجی اور معاشی ترقی کا واحد ذریعہ علم ہے۔ قدرتی وسائل اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اور اب معیاری انسانی وسائل ہی کسی ملک کی سب سے بڑی دولت ہیں جوکہ ہائی ٹیک صنعتی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی پاکستان کو تیزی سے تباہی کی جانب لے جائے گی۔ اس معاملے پر ہماری حکومت کو فوراً اقدام کرنا ہوں گے۔