جس طرح سے پاکستان کی مسلح افواج پورے ملک کی سیکورٹی کی ذمہ دار ہیں اسی طرح سے ملک کی پیرا ملٹری فورسز جن میں رینجرز، کوسٹ گارڈز، فرنٹیئر کور سرحد اور بلوچستان شامل ہیں سرحدوں کی رات دن حفاظت اور اسمگلنگ روکنے کا فریضہ ادا کر رہی ہیں اس کے علاوہ صوبائی حکومت جب چاہے اپنی مدد کیلئے ان کو طلب کر سکتی ہیں۔ یہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہیں اس فورس کے آفیسرز پاک فوج سے ڈیپوٹیشن پر 2 سے 3سال کیلئے آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔جب بھارت نے رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح 6ستمبر 1965ء کو لاہور پر تین اطراف سے حملہ کیا تھا تو رینجرز نے ان کو کئی گھنٹے روکے رکھا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ان کی پیش قدمی اس وقت تک روکے رکھی جب تک فوج کے دستوں نے آ کر پوزیشن نہیں سنبھالی۔میرا آج کا موضوع فرنٹیئر کور سرحد ہے اس کی بنیاد 1907ء میں لارڈ کرزن نے ڈالی تھی اس کا ہیڈ کوارٹر پشاور کے قلعہ بالاحصار میں ہے آج کل اس کی کمان میجر جنرل طارق خان کے پاس ہے جو IGFC (انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور) کہلاتا ہے۔ FATA کا ایریا پاکستان کے تمام علاقوں سے انتہائی دشوار گزار ہے اور جب بھی آپریشن کیا جائے تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج کل جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات جاری ہے جس میں پاکستان آرمی اور فرنٹیئر کور کے دستے تحریک طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں فوج کے حوالے سے آپریشن کے بارے میں عوام کو معلومات ملتی رہتی ہیں لیکن ہماری پیرا ملٹری فورسز کی کارروائیاں اکثر اوجھل رہتی ہیں۔ جب سے امریکہ نے وار آن ٹیرر شروع کی ہے FATA اور صوبہ سرحد کا علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے پچھلے آٹھ سالوں میں فرنٹیئر کور کے سیکڑوں جوان شہید ہوئے سول اموات اس کے علاوہ ہیں۔ روس کی شکست کے بعد طالبان القاعدہ کے بیشتر لوگ افغانستان سے FATA کے علاقہ میں آ گئے جن میں ازبک، یمنی، عرب، چیچن اور مصری شامل ہیں پورے FATA میں پھیل گئے اور ان کا ٹارگٹ فرنٹیئر کور کے افسر اور جوان ہوتے تھے ان حملوں کو روکنا بہت ضروری تھا۔ تحریک طالبان ویسے تو 2002ء میں بننی شروع ہو گئی تھی لیکن اس کو عملی شکل دسمبر 2007ء میں بیت اللہ محسود نے دی جو 5/اگست میں ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے اور نئے امیر بیت اللہ کلیم بھی ہلاک ہو چکے ہیں اب کمان طوفان کے پاس ہے۔ آج ہم باجوڑ آپریشن کے حوالے سے بات کریں گے جس میں فرنٹیئر کور مقامی لشکر اور فوج نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور باجوڑ ایجنسی کا بیشتر علاقہ خالی کروا لیا۔ 6/اگست 2008ء کو آپریشن شیر دل کے بعد یہ سب سے بڑی کامیابی ہے اس کا رقبہ 590 اسکوائر میل ہے جب کہ اس کی آبادی 7لاکھ کے لگ بھگ ہے اس کی سرحد افغانستان کے صوبہ کنار سے ملتی ہے۔ امن ہو یا حالت جنگ ایک ایجنسی میں گڑبڑ ہو تو اس کا اثر ساتوں ایجنسیوں پر پڑتا ہے اور صوبہ سرحد کا نصف علاقہ بھی متاثر ہوتا ہے ڈامہ ڈولہ جو تحریک طالبان کا گڑھ اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کی آماجگاہ تھا مہمند تحصیل میں ہے یہ بارہ چھوٹے گاؤں پر مشتمل ہے اور 16کلو میٹر دور باجوڑ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر خار کے شمال میں ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں سے پاکستان میں آپریشن کنٹرول کئے جاتے تھے۔ بیت اللہ محسود کے نائب مولوی فقیر محمد اور قاری عزیزالرحمن یہاں کے انچارج تھے اطلاعات ہیں کہ یہ دونوں آپریشن میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہاں زمین دوز بنکرز، ٹریننگ سینٹرز قائم تھے جہاں سے خودکش بمباروں کو تیار کر کے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھیجا جاتا تھا۔
کسی بھی اچھے آپریشن کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ دشمن کے کمانڈ اسٹرکچر اور اس کی LFC کو ختم کیا جائے اور پھر علاقے کی سرچ کی جائے۔ باجوڑ کا علاقہ ایک آزاد ریاست میں تبدیل ہو چکا تھا یہاں حکومت کی کوئی رٹ نہیں تھی 27جنوری 2010ء کو 16FC فرنٹیئر کور میجر جنرل طارق خان نے 5بٹالین کے ساتھ اس علاقے کو گھیرے میں لے کر رات کی تاریکی میں جب ہلکی بارش ہو رہی تھی آپریشن کا آغاز کیا اس آپریشن میں ایئر فورس کے جیٹ طیاروں، ہیلی کاپٹرز گن شپ نے بھی حصہ لیا اس آپریشن کی کمان 16FC خود کر رہے تھے اور ایک نہایت ہی خطرناک علاقے اور مشکل حالات میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب فورس کمانڈر خود کمان کرتا ہے تو جوانوں کے حوصلے مزید بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 2008ء میں فرنٹیئر کور کے دستوں کو جگہ چھوڑنی پڑی کیوں کہ وہ طالبان کی عسکری قوت کا مقابلہ نہ کر سکے آج معاملہ الٹ ہو چکا تھا بیشتر طالبان ہلاک یا بھاگ گئے تھے اس آپریشن میں 100کے قریب طالبان ہلاک ہوئے جب کہ 7جوان بھی شہید ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں 153 غاریں ٹنلز دریافت ہوئے ہیں۔ جہاں 12*10 کے کمرے بنے ہوئے تھے کمروں میں ٹریننگ، شوز اور نقشے اور گولہ بارود بھی ملا ہے۔ عام خیال ہے کہ اس طرح کی ٹنلز بنانے میں 6 سے 7 سال کا عرصہ لگا ہوگا ان کے کیا عزائم تھے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔
جب فرنٹیئر کور اور فوج اور مقامی لشکر کے دستوں نے ڈامہ ڈولہ پر قبضہ کیا تو علاقے کے لوگوں نے بڑی خوشی منائی اور روایتی ڈانس بھی کیا جنرل طارق خان کے ہاتھ بھی چومے گاؤں کے ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ پہلے پاکستانی افسر ہیں جنہوں نے اس علاقے میں قدم رکھا ہے تاریخ میں پہلی بار یہاں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اب لہرا رہا ہے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی نے الزام لگایا ہے کہ ان کے سابق رکن اسمبلی باجوڑ ہارون رشید کا مکان بارود سے اڑا دیا گیا کیونکہ وہ گھر دہشت گردوں کی آماجگاہ تھا تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے اور یہ بھی الزام لگایا ہے اس حملے میں ان کی والدہ بھی جان بحق ہو گئیں۔ راقم نے 16FC کے اسٹاف افسر سے رابطہ کر کے اصلی صورتحال جاننی چاہی بقول ان کے FCR کے قانون کے مطابق جو بھی گھر دہشت گردی میں ملوث پایا جائے یا کسی بھی گھر سے ٹرپس پر فائرنگ کی جائے تو اسے اڑا دیا جاتا ہے اور اڑانے سے پہلے SOP کے مطابق پورے گھر کو خالی کروایا جاتا ہے جہاں تک ہارون رشید کی والدہ کی ہلاکت کی بات ہے تو وہ قریب کے مکان میں تھیں جب گھر کو اڑایا گیا تو اس کی شاک ویوز کے نتیجے میں ذرا دور گھر کی چھت گرنے سے وہ ہلاک ہوئیں اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔مذکورہ واقعے سے ہٹ کر آج باجوڑ ایجنسی میں امن قائم ہو چکا ہے تاہم گوریلا وار فیز میں اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس حوالے سے حکومت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے اسے بغیر تاخیر اور رکاوٹ کے فوراً ادا کیا جائے مقامی لشکر تیار کئے جائیں تاکہ فوج اس علاقے سے نکل سکے۔ مالی امداد کے علاوہ مستقل بنیادوں پر روزگار بھی فراہم کیا جائے اگر ہم نے اس میں کوتاہی کی تو عین ممکن ہے کہ طالبان پھر سر نہ اٹھا لیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ Rehabilitation کی ذمہ داری 16FCکو سونپی جائے اس لئے کہ اس علاقے میں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے ان سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ باجوڑ آپریشن میں طالبان کی کمرتوڑ دی ہے وہ ٹکڑیوں میں بٹ چکے ہیں اب زیادہ دیر تک وجود رکھنا مشکل ہوگا۔
پیرا ملٹری فورسز ہوں یا ہماری مسلح افواج ایک جمہوری حکومت کی پالیسیوں پر گامزن ہیں ہمارا مستقبل سنوارنے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں۔ آیئے ہم سب مل کر اس کامیاب آپریشن پر 16FC اور تمام ٹرپس کو مبارکباد پیش کریں اور جو لوگ اس آپریشن میں شہید ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے درجات بلند کرے۔