فجر کے کوئی پانچ گھنٹے بعد اور ظہر سے تقریباً ڈھائی گھنٹے قبل میں بارگاہ نبوی میں حاضری کی نیت سے حرم میں داخل ہوا تو بھیڑ چھٹ چکی تھی۔ راہیں کشادہ تھیں اور دبیز سرخ رنگ قالینوں میں پاؤں دھنسے جارہے تھے۔ کچھ لوگ مر مریں ستونوں سے ٹیک لگائے قرآن حکیم کی تلاوت کررہے تھے۔ کچھ کسی گوشے میں گہری نیند سو رہے تھے۔ میرے ساتھ ساتھ پاکستان ہی سے آیا ایک معمر شخص ہو لے ہولے چل رہا تھا اور بولے جارہا تھا۔ میں نے پہلے تو سمجھا کہ شاید سیل فون پر کسی سے باتیں کررہا ہے۔ اب اس کے جملے میرے کانوں میں پڑ رہے تھے …”اب بلایا ہے تو بھول نہ جانا…پھر بھی بلاتے رہنا…ساری عمر حاضری کے جتن کرتا رہا ہوں…پہلی بار گندم کی کٹائی کے دنوں میں گھر سے نکل آیا ہوں…صرف جناب سرکار کی خاطر…اب میری لاج رکھنا…میرے بیٹے بڑے نکمے ہیں…ان پہ کوئی نظر کردیں سرکار…! “ مرد بزرگ سرکار مدینہ سے باتیں کررہا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں دعاؤں والا کوئی کتابچہ بھی نہ تھا۔ بس وہ اپنی دُھن میں مگن دھیمے ، میٹھے اور پُریقین لہجے میں بولے جارہا تھا۔ یہی اس کی دعائیں تھیں، یہی مناجات، یہی ہدیہ درودو سلام۔ اُس کا طرز کلام ایسا تھا جیسے وہ حضور کے دربار میں سرجھکائے دوزانو بیٹھا ہو۔ حضور کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم ہو۔ وہ باتیں سن رہے ہوں اور اپنے عظیم رفقا، صدیقو عمرکی طرف دیکھ کر تبسم فرما رہے ہوں۔
مجھے اس مرد سادہ پہ رشک آیا۔ علم و آگہی بے بہا نعمتیں سہی لیکن وہ تکلف کے کتنے پردے حائل کردیتی ہیں۔ سچے اور بے لاگ جذبوں کی تراش خراش کے لئے سوچ کا رندا چلنے لگے اور اظہار کے لئے شایان شان لفظوں کی تلاش ناگزیر ہوجائے تو آدمی کتنی مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ جذبہٴ بے اختیار شوق کی آگ دل محبوب تک پہنچتے پہنچتے کس قدر ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ دل جب دماغ اور زبان کے خرخشوں میں پڑ جائے تو عجب بے چارگی کی تصویر بن جاتا ہے۔ ان سارے بندھنوں سے آزاد محبت میں کتنی بے ساختگی، کیسی اپنائیت اور کس قدر سچائی ہوتی ہے۔ مجھے مولانا روم کی بیان کردہ حکایت یاد آئی۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کوہ طور کی سمت جارہے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف و اعزاز حاصل تھا۔ راستے میں ایک چرواہے کو دیکھا جس کا ریوڑ ادھر ادھر گھاس پہ منہ مار رہا تھا۔ چرواہا خود ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھا، گردو پیش سے بے نیاز اپنے اللہ سے باتیں کئے جارہا تھا“۔ اے اللہ۔! تو مجھے مل جائے تو میں تیرے بالوں میں تیل ڈالوں، کنگھی کروں، جوئیں نکالوں۔ تجھے نہلاؤں دھلاؤں، تجھے اچھے اچھے کپڑے پہناؤں…“ حضرت موسیٰ نے اسے ٹوکا۔ اسے سمجھایا کہ ذات باری تعالیٰ سے اس طرح کی گستاخی نہیں کرتے۔ آئندہ محتاط رہنا…“ چرواہا شرمسار ہوا کہ وہ کیا کرتا رہا ہے؟حضرت موسیٰ کوہ طور پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ناخوشی کا اظہار کیا اور فرمایا۔
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
”تو بندوں کو ہم سے ملانے کے لئے آیا ہے، جدا کرنے کے لئے نہیں“۔ لیکن میں نہ کوہ طور کو جاتی پگڈنڈی کے کنارے بکریاں چرانے والا چرواہا ہوں نہ پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں سے آنے والا ناخواندہ دیہاتی، سو میری محبت کا بے ساختہ پن ، شکنجوں میں کسا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ
ادب گاہیست زیر آسماں ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
میں نے محبت کی پوٹلی کو پکی گرہ ڈال رکھی تھی اور ہولے ہولے قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ سوئے ادب کے خوف نے مجھے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ جوں جوں میں روضہ رسول کے قریب جارہا تھا، میری دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں اور میری سانسیں جیسے اکھڑنے کو تھیں۔ میں جیسے گردوپیش سے کٹ کر کھوسا گیا۔ ہجوم نہ تھا کہ دھکم پیل کی کیفیت ہوتی اور میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا۔ صرف اوسان بحال نہ تھے اور حواس میں خلل سا پڑ گیا تھا۔ مجھے یہ اندازہ ضرور تھا کہ میں چل رہا ہوں۔
پھر یکایک مجھے یوں لگا جیسے میں چل نہیں رہا بلکہ کوئی مقناطیسی کشش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ سنبھلا تو سنہری جالیاں عین میری نگاہوں کے سامنے تھیں اور شفقت کا ایک نورانی ہالہ جیسے میرا حلقہ کئے ہوئے تھا۔ اندر سے کوئی خودکار سسٹم آن ہوگیا اور ہونٹوں سے درودوسلام کی نغمگی پھوٹنے لگی۔ پل بھر میں کوئی اجنبی ہاتھ ساری اجنبیت ، ساری جھجک اور سارے تکلفات اچک لے گیا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں برسوں کی جلاوطنی کے بعد اپنے گھر لوٹ آیا ہوں۔ جیسے دشت بے اماں کی سلگتی ریت کے لمبے سفر کے بعد یکایک مخملی گھاس اور گھنے سایہ دار درختوں والے نخلستان میں نکل آیا ہوں۔ جیسے بے مہر موسموں کی اذیتوں کے بعد آغوش مادر کر نرم و گداز ممتا نے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا ہو۔
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
لیکن یہ بے وجہ تھوڑا ہی تھا۔ میں رحمت للعالمین کی بارگاہ میں کھڑا تھا۔ دنیا کو امن و آشتی کا درس اور انسانی حقوق کا عظیم چارٹر دینے والے محسن انسانیت کے حضور۔ گالیاں کھا کر دعائیں دینے اور خون کے پیاسوں کو قبائیں عطا کرنے والے نبی کریم کے آستانے میں، میں جب بھی روضہ رسول کے سامنے تصویر عجز بنا کھڑا ہوتا ہوں مجھے ”مدینہ دور ہے“ کے عنوان سے لکھا گیا کالم بے اختیار یاد آجاتا ہے۔ جانے وہ عرض نیاز کی کونسی مستجاب ساعت تھی کہ اس کے بعد سے مدینہ مجھے مسلسل بلاتا رہتا ہے۔ میں غم ہائے روزگار میں الجھ کے بھول جاؤں تو مجھے آواز دیتا ہے۔ میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے…”تم تو کہتے تھے مدینہ دور ہے۔ اب دیکھو، مدینہ کس قدر قریب ہے۔ تمہیں کس طرح بلاتا رہتا ہے…اُس کی فصیل کے سارے دروازے تمہارے لئے کھلے رہتے ہیں…اب تو ”دوری“ کا گلا نہیں رہا نا؟بس آتے جاتے رہا کرو…اپنا گھر جانو…“
اپنائیت کی ٹھنڈی معطر فضا سے میں بھیگ رہا تھا۔ عزیزوں اور دوستوں کی عرضیاں میری پوٹلی میں بندھی تھیں میں نے ہولے ہولے اس کی گرہ کھولی۔ سنہری جالیوں کے اندر سے ایک سرگوشی سی آئی۔ ”کیا لائے ہو“؟ ندامت کے احساس سے مجھے پسینہ آنے لگا۔ کیا بتاتا کہ حضور ہم افتادگان خاک کے پاس ہے ہی کیا؟ ہم تو بس سوالوں کی گھٹڑیاں ہی لاسکتے ہیں۔ آپ کے لئے، آپ کے رفقاء صدیق اکبر اور عمرفاروق کے لئے میں کچھ بھی نہیں لاسکا۔ فقیر کے پاس کشکول کے سوا ہوتا ہی کیا ہے؟ شرمندگی سے نڈھال میں پوٹلی بند کرنے لگا تو ایک مہکار سی اٹھی۔ ”تمہارے سوال، تمہاری عرضیاں بھی مجھے بے حد عزیز ہیں۔ بولو! کس کس کا سلام اور کس کس کا پیغام لائے ہو…“ میں نے گھٹڑی کی گرہ کھولی اور ایک گردان سی شروع کردی۔ عرضیاں میرے آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں اور سنہری جالیوں سے آتی مہکار میرے ماتھے کا پسینہ پونچھ رہی تھی“۔ (جاری ہے)