• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھ ستمبر کی شام سید علی عمار، یاسر پیرزادہ اور میں ایک رو میں بیٹھ کر یوم شہدا کی مرکزی تقریب میں شریک ہوئے۔ یہ تقریب جی ایچ کیو کے خوبصورت آنگن میں ہوئی۔ تقریب میں کئی نامور لوگ شریک تھے، ان تمام ناموروں کے نام یہاں نہیں لکھے جاسکتے، میں یہاں ان چند باتوں کا تذکرہ کروں گا جو تقریب کے میزبان سپہ سالار پاکستان نے کیں۔ جب سے جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے ہیں انہوں نے ریاست کی عملداری پر بہت زور دیا ہے، قانون کی حکمرانی کی باتیں بھی کی ہیں ، اداروں کی مضبوطی کی بات بھی کی ہے۔ چھ ستمبر کی شام بھی انہوں نے یہ تین باتیں بڑے کھلے انداز میں کیں۔ ان تین باتوں کے علاوہ زیادہ باتیں وہ کیں جو عالمی سیاست کے تازہ رخ بتا رہی تھیں مثلاً انہوں نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ ’’عالمی طاقتیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں، ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرنے والے خود ڈو مور کریں، امریکہ سے امداد نہیں، عزت اور اعتماد چاہئے‘‘ اس کے علاوہ جنرل باجوہ نے کشمیر کا تذکرہ بڑی شدت سے کیا، پاکستان کی شہ رگ کے حوالے سے انہوں نے ایک سچے پاکستانی کی طرح باتیں کیں، بھارت سے صاف صاف کہا کہ وہ کشمیریوں پر مظالم بند کرے، گولی اورگالی کی بجائے سیاسی اور سفارتی ذرائع استعمال کرے، اس تقریب میں اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے قراردادوں کا ذکر بھی ہوا۔ ایک اورخاص بات جو جنرل باجوہ نے کی وہ پاک چین دوستی کے حوالے سے تھی، جب یہ بات ہورہی تھی اس وقت چینی سفیر تقریب میں موجود تھے۔ پاکستانی سپہ سالار نے کہا ’’سی پیک پاک چین دوستی کا مظہر، خطے کا سرمایہ اورامن کی ضمانت ہے‘‘ میانمار یعنی برما کے بارے میں آرمی چیف نے کہا کہ ’’عالمی برادری میانمار کے مسلمانوں کا تحفظ کرے‘‘۔
چھ ستمبرکی شام ہونے والی ان تمام باتوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے کئی حوالوں سے اپنی پالیسیاں بدل دی ہیں، بدلتی ہوئی نئی پالیسیاں امریکہ کو ناگوار گزر رہی ہیں، اس لئے وہ سارا کھیل جنوبی ایشیا میں کھیلنا چاہتا ہے۔ اس کھیل کیلئے اس نے بڑے کھلاڑی کے طور پر بھارت کا انتخاب کیا ہے، وہ انڈیا کے ذریعے خطے پر کنٹرول کا خواہاں ہے مگراس کا یہ خواب شاید پورا نہ ہو، اس کی بڑی وجہ چین،روس، ایران، ترکی اور شمالی کوریا کے علاوہ پاکستان ہے۔ نئی عالمی سیاست نے ان چھ ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے، معاشی طور پر مضبوط چین، امریکہ کو کھٹکتا ہے، اسی لئے اسے چین کے دوست ملک بھی کھٹکتے ہیں۔ آپ کویاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے امریکیوں نے ترکی میںبغاوت کروانے کی کوشش کی تھی جو پیوٹن کی طرف سے بروقت مہیا کردہ معلومات کے باعث ناکام ہوگئی، اس کے بعد ترکی، امریکہ کے لئے پہلے جیسا نہیں رہا، آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ اوراسرائیل نے بعض مسلمان ملکوں کی مدد سے جو دہشت گرد تنظیمیں قائم کی تھیں، انہیں ناکامیاں ملی ہیں، شام میں دہشت کا ماحول بنانے والی داعش کا کنٹرول وہاں نہیں رہا، بلکہ شام کا نوے فیصد علاقہ اب داعش سے پاک ہے، اب داعش کے دہشت گرد ایک صحرائی علاقے دورزور میں جمع ہورہے ہیں، یہیں سے ان کا رابطہ اجلان کے پہاڑوں سے ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ ان دہشت گردوں کو اسرائیلی حمایت حاصل ہے۔ اس صحرائی علاقے میں کریکستا بھی ہے جہاں جنگ کی پیش گوئی صدیوں پہلے کردی گئی تھی۔ اس وقت تک اگرچہ مسلمان ملکوں میں بہت تباہی ہو چکی ہے مگر امریکیوں کا خواب پورا نہیں ہوسکا، جنگوں سے دولت بنانےوالے امریکہ کی معاشی حالت بہت پتلی ہو چکی ہے، ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ٹرمپ نے اسلحے کی فروخت کے نام پر چند عرب ملکوں سے دولت سمیٹی ہے مگریہ دولت بھی امریکی معیشت کا علاج نہیں ہے، امریکہ کوپہلی مرتبہ اپنے اندر اختلافات اورفسادات کا سامنا ہے، وہاں نسل پرستی کی آگ پھیل چکی ہے، نسل پرستی کی اس آگ کو سمندری طوفان بجھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس کوشش میں بھی دولت کا زیاںشامل ہے، یہ طوفان بھی معیشت کو برباد کررہے ہیں۔ کچھ پیشن گوئیاں امریکہ کے 45ویں صدر کے بارے میں بھی ہیں۔ شاید یہ وہی کھیل شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت امریکیوں کو افریقہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں کچھ نظر نہیں آرہا بلکہ اس کی نگاہوں کا مرکز جنوبی ایشیا ہے، اسے آزاد مسلم ریاستوں، بلوچستان اور برما میں زیر زمین چھپےخزانے نظر آرہے ہیں، وہ مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے ان علاقوں میں شورش پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے، اسی خطے کا ایک ملک شمالی کوریا اسے جنگی صلاحیتوں کی بنیاد پرللکار رہا ہے، حالیہ دنوں میں شمالی کوریا نےہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا، انیس لاکھ ریگولر آرمی کا حامل شمالی کوریا جنگ کے لئے ہر وقت تیار ہے، اس کے پاس 70لاکھ ریزرو آرمی ہے، شمالی کوریا جنگوں کے نام پرامریکہ کی معاشی بدمعاشی کو چیلنج کررہا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد مغربی ملکوں نے دنیا کو غلام بنانے کا جو کھیل رچایا ہوا تھا، وہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کھیل میں امریکہ و برطانیہ سمیت چند مغربی ملک دنیا کے وسائل سے مرضی کا کھیل کھیلتے رہے، انہوں نے اپنے اسلحے کی فروخت کی خاطر دنیا میں نئے تنازعات کو جنم دیا، شرق اوسط کے سینے میں گڑا ہوا خنجر، پاکستان اوربھارت میں تنازع کشمیر سمیت دنیا کے کئی تنازعات شامل ہیں۔ مغربی ملکوں نے پوری دنیاکو اقوام متحدہ کے نام پربے وقوف بنا کر اپنی تجوریاں بھریں۔ یہود و نصاریٰ کے اس گٹھ جوڑ میں دنیا بھر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، یہ کھیل آج بھی جاری ہے، ایسٹ تیمور کا مسئلہ حل کرنے والی اقوام متحدہ کے سامنے فلسطین اورکشمیر آج بھی حل طلب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس طرز عمل نے خود اس کی حیثیت کو مشکوک بنا دیا ہے، نیٹو اتحادیوں کا فراڈ بھی بے نقاب ہونے والا ہے، اس مرتبہ یہودی و نصاریٰ کے ساتھ ہندو بنیا بھی شامل ہے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ ایک طویل عرصے تک ہندوئوں پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے، وہ اپنی غلامی کا بدلہ امریکہ اوراسرائیل کے ساتھ مل کر لینا چاہتے ہوں مگر یہ خواب پورا نہیں ہوگا۔ مسلمان ملکوں میں بھی دولت کے رسیاحکمرانوں کا زوال شروع ہوچکا ہے، یہی حکمران امریکیوں کے غلام تھے۔امریکہ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے چکر میں جنگ کا نیا کھیل کھیل سکتا ہے لیکن اس مرتبہ اس نئی جنگ کی بانہیں بہت دور تک پھیلیں گی، دنیا اس وقت تیسری عالمی جنگ کے کنارے پر کھڑی ہے، جنگوں سے دولت کمانے والے جنگوں میں ہار جائیں گے، دنیا پر قریباً ایک صدی سے راج کرنے والے محکوم بنتے نظر آرہے ہیں کیونکہ نیا خطہ بہت خطرناک ہے چونکہ اس میں چینی معیشت، روسی اسلحہ، شمالی کوریا کا چیلنج، ایران اور ترکی کی اصول پسندی اور پاکستان کی بہادر افواج کا جذبہ شامل ہے۔ امریکی سوچ پر محسن نقوی کے اشعار؎
میں نفرتوں کے جہاں میں رہ کر
جدا رہوں گا تو کیا کروں گا
یہ ٹھیک کہتے ہوئے بے وفا ہوں
وفا کروں گا تو کیا کروں گا

تازہ ترین