• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Blue Whale Deadly Game

بلیو وہیل چیلنج ایک ایسا کھیل ہے جس کی جیت اس کے کھیلنے والے کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے، 50چیلنجز پر مشتمل گیم کا آخری چیلنج خودکشی ہے۔

بلیو وہیل گیم کا آغاز 2015ء میں روس سے ہوا اور اب دنیا کے کئی ممالک تک پہنچ چکا ہےاور 130 افراد اسے کھیلنے کے بعد خودکشی کر چکے ہیں۔

اس گیم کو بنا نے والے 22سالہ نفسیات کے طالب علم فلپس بڈیکن کو مئی میں گرفتار کیا گیا اور یہ گیم بنانے پر اسے تین سال قید کی سزا ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ موت کا کھیل ابھی بھی جاری ہے اور لوگوں کی جان لے رہا ہے۔

فلپس بڈیکن کا کہنا ہےکہ ’’میرا اس گیم کو بنانے کا مقصد معاشرے سے نکمے اور نا کارہ لوگوں کو ختم کرنا تھا‘‘، اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ اسے اس بات کا اختیار کس نے دیا۔

خودکشی مایوسی اور ناامیدی کی علامت ہے، معاشرے میں امید کی روشنی بڑھانے کے بجائے ناامیدی کا اندھیرا پھیلانے کی کوشش کو کسی بھی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکتی۔

بلیو وہیل گیم کا خوف پھیلتا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر اس سے دور رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اس گیم کی وجہ سے بھارت میں 5افراد موت کو گلے لگا چکے ہیں، اس گیم سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی پوری ذمہ داری والدین پر عائد ہو تی ہے کہ وہ ان کی ہر حرکات پر نظر رکھیں اور انہیں اس بارے میں آگاہ کریں ۔

بلیو وہیل چیلنج نے دنیا میں خو ف پھیلا یا ہوا ہے، یہ بہت خطرناک گیم ہے، جس کے کھیلنے والوں کو مختلف ٹاسک دیئے جاتے ہیں، مثال کے طور پر صبح چار بجے سوکر اُٹھنا، ڈرائونی فلمیں دیکھنا، اونچی عمارتوں پر چڑھنا اس طرح کے مختلف خطرنا ک ٹاسک کھیلنے والوں کو دیئے جا تے ہیں ۔

ان ٹاسکس کو پورا کرنا ضروری ہو تا تھا، اس کی سب سے خطرنا ک بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ اس گیم کا حصہ بننے کے بعد اسے ختم کرنا مشکل ہوتا ہے، آخری ٹاسک میں خودکشی ہے، جسے پورا کرنا ہی کھیل کا خاتمہ ہے اور لوگ اسے انجام دینے کیلئے موت کو منہ لگا لیتے ہیں۔

اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ٹاسک پورا نہ کرنے والے کو اس گیم کے آپریٹرز کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں۔

یہ گیم دراصل وائرس کے طورپر کام کرتا ہے،اس گیم کی با قاعدہ کوئی ایپلیکیشن نہیں ہے، یہ ایک لنک کی صورت میں ملتا ہے اور اس کو شروع کرتے ہی وائرس کھیلنے والوں کی ڈیوائس میں منتقل ہوجاتا ہے اور کھلاڑی کی تمام معلومات حاصل کر کے اسی انفارمیشن کی بنیاد پر آپریٹر مختلف ٹا سک پورا کرنے کو کہتا ہے۔

روس سے شروع ہونے والے گیم نے ان دنوں بھارت میں کافی خوف پھیلا یا ہوا ہے۔

حال ہی میں اس گیم کا شکار ہو نے والی ایک بھارتی لڑکی تھی جسے خودکشی نہ کرنےکی صورت میں اس کی ماں کو مارنے کو دھمکی دی گئی۔

سائبرسیکورٹی ایکسپرٹ فاروق خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک انٹر نیٹ گیم ہے، جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں پنجے گاڑ رہا ہےجس کی وجہ سے خوف وہراس پھیل گیا ہے،اسے ہم نے خودکشی گیم کا نام دیا ہے۔

یہ کھیل نوجوانوں کو نفسیاتی، سماجی اور دیگر طریقوں سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے، بچوں پر اس کا حملہ بڑی جلدی مؤثر ہوتا ہے، کیونکہ بچے پیسوں کے لا لچ میں یا کسی اور دبائو کے نتیجے میں ان ہدایات پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔

یہ گیم جس نے ایجاد کیا تھا اسے تو روس میں گرفتا ر کر لیا گیا ہے اور اسے سزا بھی ہو گئی ہے، مگر اسے اب بھی مختلف افراد آپریٹ کر رہے ہیں۔

یہ گیم مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے لنک کے ذریعے لوگوں کو بھیجا جارہا اور پھر اس کے کھیلنے والے کے مصیبت کے دن شروع ہوجاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی انٹرنیٹ کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس گیم یا ایسی کسی بھی غلط سمت میں انہیں جانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔

تازہ ترین