• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کا مقصد تلاش کیا جائے تو یہ ایک آئیڈیل معاشرے کی تعمیر سے جُڑی ہوئی ہے وہ لوگ جو بلند خیالات رکھتے ہیں جنہیں خدا نے رہنمائی کی صلاحیتں عطا کی ہیں،جن پر زندگی اور کائنات کا مفہوم ظاہر ہو چکا ہوتا ہے جو معاشرے کو سنوارنے کے گُر جانتے ہیں جن کے پاس معاشرے کو فلاح کی طرف لے جانے کی تدبیر ہوتی ہے وہ سیاست کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے دنیا میں خیر کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔شروع میں دانش وروں فلسفیوں اور صاحبِ بصیرت انسانوں نے انہی نکات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سیاسی اصول مرتب کئے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ملکوں میں تبدیلیاں لے کے آئے۔فرانس کے انقلاب سے علامہ اقبال کے 1930کے جلسے تک سیاست کے پس پشت معاشروں کی ترقی اور تعمیر کو ترجیحاتی بنیادوںپرشامل رکھا گیا۔ پھر پوری دنیا کے حالات بدلتے چلے گئے۔سیاست اپنے معنی و مفہوم سے دور ہوتی گئی۔سیاست اور خدمت کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی گئی۔لوگوں نے سیاست کو صرف حکمرانی، طاقت، عہدے ،رعب دبدبے اور پیسے کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا۔قومی اور اجتماعی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات اہم ہوگئے تو سیاست سے اخلاقی اور انسانی اقدار مفقود ہونے لگیں ۔ہرکوئی دوسرے کو نیچا دِکھانے پرتل گیا۔ترقی یافتہ ملکوں کے اپنے معیار ہیں۔ پاکستان میں سیاسی نظام کی بدحالی نے مندرجہ بالا عناصر نے اہم کردار ادا کیا ۔اعلی تصورات اور معاشرے کی تقدیر بدلنے کا اختیار اُن لوگوں کے حصے آیا جو اپنی زمین اور اس پر بسنے والے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے ۔ کیونکہ طبقاتی فرق کی خلیج درمیان میں حائل تھی۔وہ بچے جو سیدھی طرح اپنی زبان میں بات نہیں کر سکتے ان کو قوم کی رہنمائی کا فریضہ سونپنا کہاں کی دانش مندی ہے۔اس وقت اگر تمام سیاسی جماعتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو انفرادی سطح پر میاں شہباز شریف اپنی شبانہ روز محنت سے سیاست کو خدمت کا درجہ دینے کے لئے پوری طرح فعال ہیں ۔
زندگی جنون کا نام ہے کیونکہ اسی سے تمام جذبے جنم لیتے ہیں۔یاد رہے خواہشوں کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر کے لئے ذات پر کٹھن ضابطے لاگو کرنے پڑتے ہیں۔ یہ سب مرحلے اُسی وقت طے کئے جاتے ہیں جب دِل میں تعمیر کا نقشہ اور ذہن میں آئیڈیل کا خاکہ واضح ہو پھر ہی ناممکنات کو ممکن بنانے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ پنجاب کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے انہوں نے جس حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر ایک دنیا ان کو سراہتی اور ان کی صلاحیتوں کی معترف ہے۔ ان کی شخصیت کا سب سے مثبت پہلو ان کا مضبوط ارادہ ہے۔ جب وہ کسی کام کا تہیہ کر لیتے ہیں تو کوئی مشکل انہیں واپس لوٹنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ زیادہ سے زیادہ روٹ تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر سفر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ جو منصوبے کئی سالوں کی محنت کے متقاضی ہوتے ہیں وہ ان کی توجہ سے مہینوں میں مکمل ہو جاتے ہیں۔اللہ کرے تمام صوبوں کو ایسے رہنما نصیب ہوں جو حکمرانی کی بجائے خدمت پر یقین رکھتے ہوں۔ یوں تو پنجاب حکومت کے کریڈٹ پر بے شمار کام تمغوں کی طرح چمکتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر چند بڑے منصوبوں کی بات کی جائے تو مخدوش حالات میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرنا ان کا سب سے بڑا کارنامہ کہلائے گا جو اگر بروقت نہ شروع کیا جاتا تو اس وقت پاکستان شدید ترین لوڈ شیڈنگ سے گزر رہا ہوتا اور اس کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر نمایاں دکھائی دیتا۔ گنجان آباد صوبے کے سرکاری اسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانا اور کم وسائل والے لوگوں کو بہترین سہولتیں مہیا کرنا اسی دور میں ممکن ہوا ہے۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں اسپتالوں کو میڈیکل کے جدید آلات اور دیگر لوازمات سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں توسیع کی گئی اور نئے ڈیپارٹمنٹ قائم کئے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب اس دورِ خدمت میں ترجیحات میں شامل رہا۔ مظفر گڑھ میں طیب اردگان اسپتال ایک ایسا جدید ادارہ ہے جس کی مثال پورے ملک میں نہیں ملتی۔ جگر اور گردے کے مریضوں کے لئے پنجاب بلکہ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا اس لئے لوگوں کو سفر، ویزا اور دیگر صعوبتوں کا سامنا کرتے ہوئے ہندوستان جا کر اپنا علاج کرانا پڑتا تھا جس پر ایک خطیر رقم بھی خرچ ہوتی تھی۔ اب لاہور میں ایک بڑے سینٹر کے ساتھ ساتھ ہر ضلع میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ موجود ہے جہاں جگر اور گردے کے مریض اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔ سڑکوں کی کشادگی، اوور ہیڈ برجز، انڈر پاسز کی تعمیر کی وجہ سے لاہور جیسے بڑے شہروں میں زندگی کو سکون کا سانس لینا نصیب ہوا ورنہ گھنٹوں نہر اور مال روڈ پر ٹریفک بلاک رہتی تھی۔ لاہور کی خوبصورتی میں بھی سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی تعمیر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ میٹرو بس عام آدمی کو خاص سہولتیں میسر کر کے طبقاتی فرق کو کم کرنے کی طرف ایک پیش رفت ہے۔ عدالت سے درخواست ہے کہ وہ پبلک کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اورنج ٹرین کے حوالے سے شفقت کا مظاہرہ کرے کیوں کہ اس منصوبے میں رکاوٹ کی وجہ سے مختلف جگہوں پر توڑ پھوڑ اور آلودگی کا شہریوں پر برا اثر پڑ رہا ہے جبکہ اس منصوبے پر کافی رقم خرچ ہو چکی ہے۔ اور اس کا جلد از جلد مکمل کرنا ضروری ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ شیر شاہ سوری کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ تعمیرات کا سہرا بھی پنجاب کی موجودہ حکومت کے سر ہے ۔سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو سوجھ بوجھ سے معاملات کو حل کرنے، دیگر ملکوں اور تمام ملکی اداروں سے ہم آہنگی قائم کر کے وفاق کو مضبوط کرنے میں بھی وہ موجودہ تمام رہنمائوں میں سرفہرست ہیں۔ آج کل میڈیا کے کچھ اداروں کی طرف سے جو پاکستان کی شناخت کو دنیا کی نظروں میں مجروع کرنے میں مصروف ِ عمل ہیں ۔اُن کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی دیانتدار اور شفاف انسان نہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، عزت اور ذلت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ خدمتِ خلق کرنے والوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا۔ میں ایک محبِ وطن شہری ہوں۔ جو بھی میری زمین اور میرے ہم وطنوں کی ترقی کے خواب دیکھے گا میرا قلم اور دعائیں اس کا حصار کئے رہیں گی۔ میں ایک ایسا ہی کالم سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کے بارے میں بھی لکھنا چاہتی ہوں، دیکھئے کب میری خواہش پوری ہو۔

تازہ ترین