• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائے کراچی والےکہاں جائیں، خدا خدا کر کے کراچی میں چند دن تو بارش ہوئی اسے بھی رحمت کے بجائے زحمت بنا دیا گیا کراچی جو سندھ حکومت اور بلدیہ کی باہمی چپقلش کے باعث پہلے ہی کچرا کچرا بنا ہوا تھا جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے کچھ دن تو بحریہ ٹائون کے تعاون سے کچرا اٹھایا گیا اس کے بعد پھر وہی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنتی چلی گئیں، اوپر سے محکمہ موسمیات کی تمام تر تنبیہ کے باوجود بلدیہ نہ سندھ حکومت کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ ہی برساتی نالوں کو صاف کیا گیا ہر جگہ کچرا ہی کچرا بھرا ہوا تھا جب بارش نے آن لیا تو جو برساتی پانی نالوں میں بہنا چاہئے تھا وہ کچرے سے لبالب بھری سڑکوں پر بہنے لگا نتیجتاً برساتی پانی نے سڑکوں کے کناروں اور نشیبی علاقوں کے ساتھ تمام علاقوں کا کچرا اپنے ساتھ بہا لیا یوں پانی کی جو تھوڑی بہت نکاسی ہوسکتی تھی وہ بھی کچرے کی وجہ سے نہ ہوسکی اور سڑکیں، گلیاں اور شاہراہیں سب تالابوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ایک تو پہلے ہی تعمیر نو کے نام پر ہر طرف سڑکیں کھدی ہوئی ہیں رہی سہی کسر بارش نے پوری کردی۔ کراچی کے اہل کرم چاہے وہ سرکاری ہوں یا بلدیاتی سب تماشہ دیکھتے رہےاور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہے۔ مرکزی حکومت تو بے چاری اپنی ہی پریشانی میں مبتلا ہے اس کو ہوش ہی نہیں ہے اگر ہوش ہے تو میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کو بچانے کی فکر ہے ۔ پنجاب میں حلقہ 120 کے ضمنی انتخابات نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے تمام لیگی رہنما میاں صاحب کی عزت بچانے میں جتے ہوئے ہیں کسی کو کچھ اور نا سنائی اور دکھائی دے رہا ہے۔ کراچی ایسا محسوس ہو رہا ہے شاید کسی اور جزیرے پر واقع ہے اس کا مرکزی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اب جبکہ عنقریب الیکشن منعقد ہونے کے امکانات ہیں مسلم لیگی حکومت کا سندھ خصوصاً کراچی سے ہے مزید ناکامی کے بعد کیا ہوگا کراچی کے عوام اور خواص کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ سندھ حکومت اپنی بے بسی کا رونا رو رہی ہے بلدیہ اپنے نا مساعد حالات کو رو رہی ہے اور عوام ان دونوں جماعتوں کے درمیان حیران پریشان پھر رہے ہیں۔ محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ عوام صرف ٹیکس دینے اور اس کے بعد ہر پانچ سال بعد اگر الیکشن ہو نا ممکن ہوں تو ووٹ دینے کے لئے ہیں باقی اللہ اللہ خیر صلہ، کراچی کے عوام کو خصوصاً یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب اگر کسی طرح مقررہ وقت پر الیکشن ہوگئے تو (جس کی امید کم نظر آرہی ہے) تو سندھ میں جس پارٹی کی حکومت بنے اسے ہی بلدیاتی اختیارات کے لئے چنے ورنہ حالات یوں ہی رہیں گے۔
کافی دنوں پہلے غالباً فاروق احمد خان نے کراچی کو کچراچی کا عنوان دیا تھا جو آج صد فیصد درست دکھائی دے رہا ہے کراچی میں ہر طرف کچرا ہی کچرا ہے رہی سہی کسرلوگوں کے طریقہ قربانی نے پوری کردی چند روز میں ہی لاکھوں جانوروں کی آلائشیں جو اب تک اٹھائی جا رہی ہیں پڑی ہیں۔ چاروں طرف بدبو پھیلی ہوئی ہے ۔ کچرے کی بدبو ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ آلائشوں کی بدبو نے اس میں اضافہ کردیا ہے،۔حکمران وقت اور خصوصاً پیپلز پارٹی بہت بڑی غلطی کر رہی ہے وہ سندھ کے شہری علاقوں کو خصوصاً یہ باور کرا رہی ہے کہ ہم سے کوئی امید مت رکھو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔یہ وہی روئیے ہیں جس نے ایم کیو ایم کو جنم دیا تھا ایک بار پھر سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی وہ انداز اپنا رہی ہے جس نے ماضی میں اردو بولنے والوں میں احساس محرومی جگایا تھا
کراچی میں ہر قوم ہر نسل کے لوگ ملک کے کونے کونے سے آکر آباد ہیں یہ ایک خوب صورت گلدستہ ہے اس کی خوش بو سے پورا پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے وہ مقامات جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں مہکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت و اقتصادی حیثیت کومستحکم کرنے میں کراچی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وفاقی حکومت اگر میاں نواز شریف کے سحر سے نکل آئے تو اسے سندھ خصوصاً کراچی پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے حکمراں چاہے مرکزی ہوں یا صوبائی انہیں خواب خرگوش سے بیدار ہونا ہی پڑے گا اور سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ہوگا۔کراچی جو حکمرانوں کی ضد اور نا اہلی کے باعث کچرا کنڈی بنتا جا رہا ہے اس کچرے میں کسی نے دیا سلائی دکھا دی تو اس سے اٹھنے والے دھوئیں کے بادلوں میں حکمرانوں کو پھر کچھ نظر نہیں آئے گا کہیں حکمراںخود تو یہ نہیں چاہ رہے کہ ملک میں مفادات کی آگ بھڑکا دی جائے تاکہ الیکشن موخر ہوجائیں اور ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں و ہمارے حکمرانوں و سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور وہ کراچی کے مسائل کی طرف فوری توجہ دیں اور انہیں حل کریں کراچی میں بھی انسان ہی بستے ہیں نہ یہ جانوروں کی بستی ہے نہ ہی یہ انسانوں کی بکر منڈی ہے۔

تازہ ترین