بھکاری کون ہوتا ہے؟ ہم کسے بھکاری سمجھتے ہیں؟ وہی ناں کہ جو ہم سے بھیک مانگے۔ ہم سے کچھ طلب کرے۔ وہ چیز جو اس کے پاس نہ ہو وہ ہمارے پاس ہو، دراصل بھیک مانگنے والے کو یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ مجھے چاہئے وہ اس سے مل سکتا ہے، جس سے میں بھیک مانگ رہا ہوں۔ اب یہ بھیک دینے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی جلد بھیک دیتا ہے۔ کچھ لوگ اللہ رب العالمین کی رضا کی خاطر ضرورت مند کو فوراً اپنی حیثیت اور بھکاری کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ہیں۔ بعض لوگ بھکاری کے بھیک مانگنے کے الفاظ سے متاثر ہوتے ہیں۔ بھیک مانگنے والا جتنا موٴثر اور دلکش انداز میں بھیک مانگے گا، دینے والا بھی اسی طرح سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کریگا۔ آپ کی نظروں سے یہ منظر کئی بار گزرا ہوگا اور خاص طور پر اس طرح کے مناظر وطن عزیز پاکستان یا دیگر مسلمان ممالک میں نظر آتے ہیں کہ ایک فیملی کے افراد ایک عالیشان گاڑی میں شاپنگ کرنے یا شام کو آئس کریم پارلر پر جانے یا فروٹ جوس پینے کیلئے کسی بڑے شاپنگ سنٹر کے سامنے گاڑی پارک کرنے کے بعد باہر نکلتے ہیں تو بھکاریوں کا ایک ٹولہ اس فیملی کے ارد گرد جمع ہوجاتا ہے۔ اب ان بھکاریوں کے درمیان فیملی کے افراد کو دعائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک دعائیں دی جاتی ہیں اور اس انداز سے دی جاتی ہیں کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں۔ صاحب اگر اپنے کاروبار اور نوکری میں ترقی کی جستجو میں ہیں تو یہ دعا کارگر ثابت ہوگی۔ خدا کرے صاحب کو کاروبار میں ترقی ہوجائے، آپ کو اپنے دفتر میں سب سے اونچی جگہ ملے، یہ سن کر صاحب کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف جاتا ہے۔ اگر بیگم صاحبہ اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند ہیں تو پھر بچوں کے ماں باپ کا تابع فرمان ہونے، نیک ہونے اور بچیوں کے اچھے رشتے آنے کی دعائیں بیگم صاحبہ کو پرس کھولنے پر آمادہ کردیتی ہیں۔ امتحان میں کامیابی کی دعائیں بچوں کو اچھی لگتی ہیں اور وہ اپنے ماں باپ کو بھکاری کو کچھ نہ کچھ دینے پر آمادہ کرتے ہیں۔ بھکاری کو بھیک دینے کے بعد خاندان کا سربراہ اکثر بڑبڑاتا ہے اور کہتا ہے، پتہ نہیں یہ بھکاری کہاں سے آجاتے ہیں، پتہ نہیں یہ کب ختم ہونگے، ان کو روکا کیوں نہیں جاتا، پریشان کرکے رکھ دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو ایک علیحدہ مضمون ہے کہ یہ بھکاری کہاں سے آجاتے ہیں یہ کب ختم ہوں گے اور ان کو روکا کیوں نہیں جاتا، لیکن اکثر اوقات یہ سب کچھ کہنے والا شخص یہ نہیں جانتا کہ ایک دن اسے بھی بھکاری بننا ہے۔ آج تو وہ اس شخص کو حقارت کی نظروں سے دیکھ رہا ہے جسے حالات نے یا ”بھکاری مافیا“ نے اس سطح تک پہنچا دیا ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا ہے لیکن عمدہ اور عالیشان گاڑی سے اترنے والے آرام دہ گھر میں رہنے والے، مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھانے والے اور بڑے بڑے پلازوں اور شاپنگ سنٹرز میں شاپنگ کرنے والے کو خود ایک دن بھکاری بننا ہے اور اپنی فیملی کے سامنے بھکاری بننا ہے۔ جی ہاں، اپنی فیملی اپنے خاندان کے سامنے ہاتھ پھیلانے ہیں، ان سے التجا کرنی ہے، ان کو طرح طرح کے انداز سے اپنے احسانات یاد کرا کے ان سے کچھ بھیک دینے، کچھ اچھے اعمال دینے کی درخواست کرنی ہے۔ منت سماجت کرنی ہے، گزارش کرنی ہے، رو رو کر گزارش کرنی ہے، بھیک مانگنے کے انداز میں … لیکن اس دن کسی نے بھی (الا ماشاء اللہ) کچھ نہیں دینا۔ ایک لمحے کیلئے اس منظر کو ذرا ذہن میں لایئے جب ایک شخص اپنے بھائی سے بھیک مانگے گا لیکن بھائی درخواست گزار بھائی کو تسلی کے بول دینے کی بجائے بھاگ جائیگا۔ (یوم یغرالرء من اخیہ) پھر وہ دیکھے گا کہ اسکے ماں باپ اسکے پاس آرہے ہیں اور کچھ مانگنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو دیکھ کر بھاگ جائے گا (وامہ وابیہ) آگے بڑھے گا تو اس کو اس کی چہیتی بیوی اور جان سے پیاری اولاد نظر آئیگی۔ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کیلئے وہ اس دنیا میں سب کچھ کرتا رہا تھا۔ آپ اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ دولت کی ہوس میں جب مبتلا نظر آتے ہیں اور دنیا کی ہوس اور لالچ میں حد سے گزر جاتے ہیں اور ان کے عزیز و اقارب اور دوست احباب ان کو آرام کرنے اور نارمل زندگی گزارنے کا مشورہ دیتے ہیں تو وہ اکثر جواب میں کہتے ہیں میں اپنے لئے تو کچھ نہیں کر رہا۔ میرے لئے تو بہت کچھ ہے، جو کچھ کمایا ہے، وہ میرے لئے کافی ہے۔ میں تو بچوں کیلئے کر رہا ہوں تاکہ ان کی زندگی آرام سے گزرے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کے آرام کیلئے ان کے والد صاحب حلال حرام کی تمیز سے بھی گزر جاتے ہیں صرف بنک بیلنس بڑا ہونا چاہئے، وسیع و عریض جائیداد ہونی چاہئے، خواہ یہ کسی بھی طرح سے حاصل ہو۔ اس دن یہی والد اولاد سے اور شوہر اپنی بیوی سے جسکی خوشی کیلئے اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کیلئے ہر خواہش اور ہر فرمائش پوری کرتا تھا۔ کچھ نیک اعمال کی بھیک مانگے گا لیکن اسے معلوم ہوگا کہ وہ تو یہاں بھی اس سے کچھ مانگنا چاہتے ہیں۔ بجائے کچھ نیکیاں دینے کے اسکی نیکیاں طلب کررہے ہیں تو وہ اپنی بیوی اور بچوں سے بھی بھاگے گا (و صاحبتہ و بینہ) کیونکہ اس دن ہر کسی کو اپنی فکر پڑی ہوگی۔ کوئی بھی کسی کو نیکی کی بھیک نہیں دے گا۔ ایسا لگے گا جیسے اکثر لوگ خود بھکاری بن گئے ہیں وہ کچھ دینے کی بجائے مانگ رہے ہیں۔ اس دن میدان محشر میں نیک اعمال کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والوں کا عجیب عالم ہوگا۔ امام ترمذی نے سورة عبس کی تفسیر میں ”باب البعث“ میں یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرم نور مجسم رحمت دو عالم سیدنا محمد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة ”عبس“ کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن ننگے پیر ہونگے“۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا ”یا رسول اللہ اس طرح شرم گاہوں پر نظر نہیں پڑے گی“۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ سورہٴ عبس کی آیت تلاوت فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”اس دن ہر کسی کو ایسی فکر دامن گیر ہوگی کہ ان کو دیگر تمام باتوں سے بے نیاز کردیگی“۔ یعنی کسی کو بھی اپنے علاوہ کسی اور کا ہوش نہیں ہوگا۔ ہر کوئی اسی امید پر ادھر ادھر بھاگ رہا ہوگا کہ کہیں سے بھیک مل جائے۔ کوئی نیکی کی خیرات اس کے دامن مراد میں ڈال دے لیکن اس کے عزیز و اقارب رشتہ دار، بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی سب اس سے بھاگ رہے ہوں گے۔ دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ جائینگے بلکہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے (الأ خلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو) کیونکہ انکی دوستی دنیاداری کی دوستی تھی دونوں کا تعلق اخلاص پر اور حقیقی خیرخواہی پر مبنی نہیں تھا لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بڑھ کر آپ کو سینے سے لگا لیں گے آپ کو تسلی دینگے۔ بے لباسوں کو لباس مہیا کرنے کی التجا کرینگے، پیاسوں کو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جام کوثر پلانے کیلئے بارگاہ مصطفوی کی طرف لے جائینگے۔ یہ کون لوگ ہونگے (الاالمتقین) یہ اور نہیں صرف اور صرف ”المتقین“ ہوں گے، اولیاء اللہ ہوں گے (الذین آمنوا وکانو یتقون) اگر ان سے اس دنیا میں تعلق مستحکم اور مضبوط ہوگا تو روز محشر وہ ہمیں بارگاہ حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر کرینگے جہاں سے شفاعت کا روح افزا پیغام دل نواز ملے گا لیکن اس کیلئے آقا علیہ السلام سے آج سے اس دنیا میں تعلق پختہ تر کرنا ہوگا، سنتوں کا اتباع کرنا ہوگا اور شریعت پر عمل کرنا ہوگا۔
آج لے ان کی پناہ، مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا۔