• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غریب کا ایک تصور وہ ہے جو عوام میں موجود ہے، اور یہ اس کی ظاہری حالت کی وجہ سے ہے، اس کے مالی معاملات کی وجہ سے ہے، غریب کا ایک حقیقی تصور وہ ہے جو حضور سرور کائنات ﷺ نے ہمیں دیا ہے، سوال یہ ہے کہ غریب کسے کہتے ہیں؟ غریب کون ہوتاہے؟ ہم کسے غریب سمجھتے ہیں؟؟؟ عام طور پر مفلوک الحال، قلاش مفلس و نادار آدمی کو غریب سمجھاجاتاہے، حالانکہ عربی میں زبان ولغت کے اعتبار سے غریب وہ ہے جو دوسروں سے منفرد ہو، ممتاز ہو، منفرد ہو، یکتا نظر آئے، وہ محفل میں بھی جدا جدا نظر آئے، وہ اپنی مثال آپ ہو، لوگ اس کو دیکھیں اور حیرت سے دیکھتے ہی رہ جائیں، اس لئے اردو زبان میں لفظ ”عجیب“ کے ساتھ مترادف کے طور پر ”غریب“ کا لاحقہ لگایاجاتاہے، ہم سب جانتے ہیں کہ جب ہم کسی حیران کن چیز لباس، منظر اور فرد کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ کہ اٹھتے ہیں، ”یہ عجیب و غریب“ ہے، یعنی حیران کن ہے، غیر معمولی ہے، قرآن مجید میں بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں جہاں زبان کا عمومی انداز نہیں بلکہ خالق کائنات کا خصوصی اور اعجاز آخر میں اظہار نظر آتاہے، ان مقامات پر زبان، لغت، ڈکشنری، ضرب المثال محاورہ تشبیہ اور استعارہ کچھ بھی وہاں معمول کے مطابق نہیں ہوتا، صرف ”احکم الحاکمین“ کا کلام ہوتاہے اوراس کا روح کی تہہ تک اتر جانے والا اثر ہوتاہے، ایسے مقامات کو جن کی لغت اور زبان و ادب کے حوالے سے کوئی توجیہ نہ کی جاسکے، اسے ” غریب القرآن“ کہتے ہیں، علمائے ادب لغت ان مقامات سے سر جھکاکر گزرجاتے ہیں اور اپنی بے بسی اور علم کی محدودیت کا اعتراف کرتے ہیں، ”غرائب القرآن“ دراصل اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ یہ حیران کن مقامات قرآن ہیں، جو صرف اور صرف کلام الہی کا ہی خاصہ ہیں، اس طرح کا انداز اور کوئی ملتا، اسلام کے اولین دور میں سرور کائنات نبی رحمت نور مجسم فخر دو عالم سیدنا محمدﷺ کے پیغام انقلاب آخر میں ہر ”لبیک“ کہنے والے منفرد یکجا، ممتاز اور اپنی مثال آپ تھے، اپنے آقاﷺ کے ایک اشارے پر اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتے تھے، وہ اپنی جان، مال، عزت اور آبرو سب کچھ آقا علیہ الصلوة والسلام پر نچھاور کرنے کیلئے ہمیشہ بے تاب رہتے تھے، ان کی اس بے ساختہ، بے لوث، بے مثال اور پایاں محبت اور عقیدت کو دیکھ کر کفار مکہ چڑتے تھے اور انہیں معاذاللہ بے وقوف کہتے تھے، (قالوانومن کماآمن السفہآء) لیکن اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بے وقوف کہنے والے کافر اور مشکرین خود ہی بے وقوف اور احمق ہیں، درحقیقت یہ لوگ غریب تھے، عجیب و غریب تھے۔
حضور علیہ السلام نے اپنے قول مبارک سے اس کی ضمانت فرمادی جس سے پتہ چلاکہ یہ مقدس گروہ ”السفہاء“ کا گروہ نہیں بلکہ ”الغرباء“ کا گروہ تھا، میرے آقا کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے۔
اسلام کے اولین دور میں اس کا آغاز غرباء سے ہوا اور جب بھی لوگوں کی زندگی میں لوٹ کر آئیگا، تو غرباء ہی اس پر عمل پیرا ہوں گے، اے غرباء! تمہیں خوشخبری ہو۔ (خطوبا للغرباء) اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عام طور پر ہمارے معاشرے کے مسکین اور معاشی طور پر کم خوشحال لوگ ہی دینی تعلیمات پر عمل ہوتے نظر آتے ہیں، کیونکہ اقبال کے بقول
جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
لیکن جواب شکوہ میں اقبال غریب و مسکین لوگوں کی طرف اشارہ کررہاہے، درحقیقت حضور علیہ السلام کی نگاہ مبارک میں غریب اور طرح کے لوگ تھے، حیران کردینے والے لوگ تھے، خواہ حضرت عثمان غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کی طرح اپنے دور کا کروڑ پتی تاجر یا حضرت سیدنا بلال حبشی اور حضرت سلمان فارسی جیسا آزاد کردہ غلام ہو یا حضرت ابوذرغفاری جیسا درویش منش صحابی ہو سب ہی محبت رسول ﷺ میں، عقیدت رسول ﷺ میں، اطاعت رسول ﷺ میں، غلامی رسول ﷺ میں غریب تھے، سب ہی عجیب و غریب تھے، ایک صحابی کو میرے آقا نے ان کی نماز کے درمیان آواز دے کر بلایا وہ نماز کی حالت میں دوڑ کر آئے، حضور علیہ السلام کا فرمان سنا، کسی بستی میں آپ علیہ السلام کا پیغام پہنچانا تھا، وہ اسی وقت حضور علیہ السلام کا پیغام پہنچانے اس بستی کی طرف چل پڑے اور چلتے چلتے نماز بھی پڑھتے جاتے تھے، راستے میں جہاں چلتے چلتے قرأت مکمل کرتے رک کر سجدہ رکوع اور سجدہ کرتے اور پھر چل پڑتے، وہ ایک صحابی رسول کی نماز تھی جس پر ہماری ساری زندگی کی نمازیں قربان ہوجائیں، ان کی نماز میں انہماک، توجہ الی اللہ، خشوع وخضوع اور حضوری کی اعلیٰ ترین صفات اور پاکیزہ تصورات اور نورانی خیالات سے معمور اورلبریز ہوتی تھیں، اس صحابی کا سفر بھی مکمل ہوا اور نماز بھی تکمیل پذیر ہوگئی، اللہ رب العالمین کا فرض بھی ادا ہوگیا اور آقا علیہ السلام کے حکم کی تعمیل اور تکمیل بھی ہوگئی، تھے ناں عجیب و غریب لوگ! رسالتمآبﷺنے نشاندہی قرار دی کہ اب کوئی اسلام کو اس کے اصل رنگ میں اصل روپ میں اس کی تمام برکات اور نورانی برسات کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں، تو اس کا ایک یہی راستہ ہے، (فسیعود غریبا) یہ اس حالت میں لوٹ آئیگا کہ پھر اس پر عمل پیرا ہونے والے اپنے کردار گفتار لہجے، معاملات، عبادات تصورات اور اثرات میں منفرد اور یکجا ممتاز اور بے مثال نظر آئیں، عجیب وغریب نظر آئیں، جس معاشرہ میں سب لوگ دولت کی ہوس میں مبتلا ہوں یہ سکون سے اپنے رب کی طرف توجہ لگاکر اس کی رضا پر راضی ہوں کیونکہ سب سے بڑا اعزاز ہے، (ورضوان من اللہ اکبر) جہاں لوگ جھوٹ دغا، فریب عیاری اورمکاری کی دوکانیں سجائے بیٹھے ہوں یہ وہاں خلوص، محبت، ایثار اورپیار کی سوغات تقسیم کررہے ہوں،جہاں لوگ ملاوٹ دھوکہ دہی، فراڈ، بدزبانی، فحاشی اورعریانی کو زندگی کا حاصل سمجھے ہوئے ہوں، وہاں یہ لوگ ایمان، ایقان، اخلاص، صدق مقال اور رزق حلال کی عملی تصویر نظر آئیں، یہی عجیب و غریب لوگ ہی اسلام کی نشاة ثانیہ اور نظام مصطفی کے نفاذ کا ہر اول دستہ ہوں گے۔
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھادیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی


تازہ ترین