ڈرپوک آدمی شریف ہو تا ہے یا شریف آدمی ڈرپوک ہو تا ہے ؟۔ یہ سوال انڈے اور مرغی والا تو نہیں ہے مگر ہے خاصہ پیچیدہ ۔ یہ سوال مجھے ہمیشہ ہی پریشان کرتا ہے مگر آج تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہوں ۔ عام لوگ اگر شریف آدمی کو بزدل کہتے ہیں تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی ۔ اس سے لوگوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آ دمی اپنی بزدلی کی وجہ سے شریف بن گیا ہے ۔ اس لئے توکسی شاعر نے ،غالبا فراق نے کہا ہے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں
یہاں فرشتے سے مراد آ سمانی فرشتے نہیں ہیں بلکہ وہ انسان ہیں جو اس گناہ گار دنیا میں فرشتہ بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجبوری ہی انسان کو فرشتہ یا شریف بناتی ہے البتہ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جتنے بھی شریف آدمی دیکھے ہیں وہ ڈرپوک ہی دیکھے ہیں ۔ انہیں یہ ڈر کھائے جا تا ہے کہ ان کی کسی حرکت سے کہیں ان کی عزت اور شرافت پر حرف نہ آ جائے ۔ کہیں وہ اور ان کا خاندان بد نام نہ ہو جا ئے ۔یوں تو عزت و ناموس کا یہ خیال اور بدنام ہو جانے کا یہ ڈر ہمارے اس معاشرے کی دین ہے جس میں خاندان کے خاندان اکٹھے رہتے تھے۔ اور جس گلی یا جس محلے بلکہ جس قصبے یا شہر میں بھی رہتے تھے وہاں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے ۔ اگر فرد کو نہیں توکم سے کم خاندان کو ضرور جا نتے تھے ۔اس لئے سب اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کہیں ان کے خاندان کے نام پر دھبہ نہ لگ جائے اور جوبدمعاش بھی ہوتے تھے وہ بھی اپنے محلے سے باہر ہی بدمعاشی کیا کرتے تھے، اپنے محلے میں سیدھے رہتے تھے۔ ۔ اسی پرتو یہ محاورہ بن گیا تھا کہ” سانپ ہر جگہ ٹیڑھا ٹیڑھا چلتا ہے مگر اپنے بل میں سیدھا گھستا ہے ۔“ کسی محلے میں کوئی لڑکاغلط حرکت کرتا تھا توبزرگ یہ محاورہ سنا کر اسے سمجھا یا کرتے تھے کہ سانپ سے سیکھو۔ اچھا تو،اس وقت میں یہ باتیں کیوں لے بیٹھا ہوں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سال بجٹ آنے سے پہلے اور اس کے بعد ہمارے ہاں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ اگر ہم سب اپنے حصے کا ٹیکس ایمانداری کے ساتھ ادا کریں تو ہمیں دوسرے ملکوں اور اداروں سے قرض لینے یا بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ اسی بحث میں یہ قصہ بھی چھڑ جا تا ہے کہ اگرٹیکس وصول کر نے والے ہی ٹھیک ہو جائیں تو ہمارا بجٹ خسارے کا نہیں رہے گا۔ یہ انکم ٹیکس اور اس جیسے دوسرے اداروں کا عملہ ہی ہے جو ٹیکس دینے والوں کو چوری کرنا سکھا تا ہے ۔ہمارے افسانہ نگار اور شاعر دوست ایرج مبارک تو اس بات پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں آپ انکم ٹیکس اور ایکسائز و ٹیکسیشن جیسے محکمے ختم کر دیجے اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کا ٹھیکہ کسی غیر ملکی ادارے کو دے دیجے پھر دیکھئے اس ملک کے کیسے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ یہاں خود بخود ہی ہن برسنا شروع ہو جائے گا ۔ اور ہم دنیا کی امیر ترین قوم اور نہایت ترقی یافتہ ملک بن جائیں گے ۔ بات ان کی غلط نہیں ہے۔مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسا کرے گاکون؟ اور اگر کوئی کرے گا بھی تو کیاوہ اس میں اپنی پتی نہیں رکھے گا؟
اصل مسئلہ تو اپنی پتی رکھنے کا ہے ۔ہم نے باہر کے اداروں سے بھی یہ کام کرا کے دیکھ لئے مگر نتیجہ کیا ہوا ؟ عدالتوں میں چلنے والے مقدموں سے اس کا ندازہ لگا لیجے۔
ہاں، اس ساری بحث میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ انکم ٹیکس کا محکمہ ہو یا کوئی اور محکمہ ان میں کام کرنے والے سب کے سب بد دیانت، بے ایمان اوررشوت خور نہیں ہوتے ۔ایمان دار اور دیانت دار بھی ہوتے ہیں۔ اب ان کی یہ دیانت داری ان کی بزدلی کی وجہ سے ہو تی ہے یا ذاتی اور خاندانی شرافت کی وجہ سے ؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ایسے نیک اور دیانت دار انکم ٹیکس افسر میں نے بھی دیکھے ہیں ۔ اور یہ کوئی یہ خاص پرانی بات بھی نہیں ہے ۔ایک تو اپنے ارتضی زیدی ہیں ۔جو انکم ٹیکس افسر سے ترقی کرتے کرتے اعلی ترین عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہو ئے ۔میں ان کی ایمان داری کا صرف ایک واقعہ سنا تا ہوں۔ جب وہ انکم ٹیکس افسر تھے اور لاہور میں تعینات تھے تو ایک دن میں ان سے ملنے ان کے دفتر گیا ۔باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے کسی دوست کا پتہ پو چھا ۔ میں نے ان کی میز پر پڑا ہوا ایک سادہ کا غذ اٹھا یا اور پتہ لکھنے لگا۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے وہ کا غذچھین لیا اور بولے۔ ” اس پر نہیں، یہ سرکاری کا غذ ہےَ“ یہ کہہ کر انہوں دراز سے ایک اور کا غذ نکالا اور کہا ”یہ لو یہ میرا ذاتی کا غذ ہے۔ اس پر لکھو“۔ ایسے ہی ایک اور بھی انکم ٹیکس افسر سے ہمارے تعلقات ہو گئے تھے۔ یہ صاحب ملتان میں تھے ۔ بہت ہی شریف انسان۔ پورا نام تو اس وقت یاد نہیں آ رہا ہے مگر شاید اصغرجیسا کوئی نام تھا ۔ایک دوبار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ خاصے سینیرافسر تھے ۔ مگرڈرائنگ روم کے نام کے چھوٹے سے کمرے میں بید کی سادہ سی کر سیاں پڑی ہوتی تھیں اور کمروں میں بان کی بنی ہوئی چارپائیاں نظر آ تی تھیں۔میں یہاں انکم ٹیکس افسروں کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ یہ محکمہ سب سے زیادہ بدنام ہے ۔ظاہر ہے اگر اس وقت ایسے ایمان دار افسر ہو تے تھے تو آج کیوں نہیں ہو سکتے ۔ اگر وہ آ ٹے میں نمک کے برا بر بھی ہیں تو وہ کہیں تو کام کرر ہے ہوں گے ۔مگر شاید وہ ڈرپوک ہیں کہ وہ شریف ہیں۔ اس لئے ان کی نہیں چلتی۔یوں تو ہمارے ہاں مذہب کا چر چا جتنا آج ہے اتنا ساٹھ باسٹھ سال میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔عام آ دمی مذہب کے نام پر ہر وقت اپنی جان قربان کر نے کو تیار رہتا ہے مگرسرکاری واجبات ادا کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتا۔ گھڑا گھڑا یا بہانہ یہ ہے کہ حکومت ہمارے لئے کیا کررہی ہے۔ہمارا کارو باری طبقہ سب سے زیادہ دین دار ہو تا ہے ۔وہ ہر سال لاکھوں روپے خیرات کرتا ہے۔ ہر روز بیس پچیس روپے کا صدقہ دیتا ہے۔ دینی جماعتوں اور مدرسوں کے چندے کا بڑا حصہ انہی کی جیب سے جاتا ہے ۔لیکن یہ طبقہ بھی ٹیکس ادا کرنے میں حیلے بہانے کرتا ہے ۔ اور کہتا یہ ہے کہ انکم ٹیکس والے ہی ان سے بد عنوانی کراتے ہیں ۔وہ یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ انکم ٹیکس کے عملے سے ہماری جان چھڑا دو اور اس کے بعدہمارے اوپر کوئی بھی ٹیکس مقرر کر دو ہم خود ہی ادا کر دیا کریں گے ۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ ذرا غور کیجئے کتنے دکان دار ایسے ہیں جن کی روزانہ کی آمدنی لاکھوں میں ہے مگر وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے کہ کسی دستاویز میں ان کا نام نہیں ہے ۔ پان سیگریٹ اور چنے چھولے بیچنے والے بھی ان میں شامل ہیں ۔ وہ لاکھوں کماتے ہیں مگر کہلاتے غریب ہیں۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT)کی مخالفت میں بھی سر دھڑ کی بازی اسی لئے لگائی گئی کہ اس طرح وہ کاغذوں میں آ جا ئیں گے اور انہیں ٹیکس دینا پڑ جا ئے گا ۔ ۔اب رہیں حزب اختلاف کی جماعتیں تو ان کا کام ہی حکومت کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا ہے ۔ حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ ٹیکس ساری دنیا میں لگایا جا تا ہے ۔ اور دنیا کی جتنی بھی فلاحی مملکتیں ہیں وہ ان ٹیکسوں کی وجہ سے ہی اپنے عوام کو ہر قسم کی سہو لتیں بہم پہنچا رہی ہیں ۔وہاں آمدنی کا چالیس فیصد تک ٹیکس وصول کیا جا تا ہے ۔تو پھر۔۔ پورا پو را ٹیکس کون دیتا ہے ؟ ملا زمت پیشہ آ دمی یا وہ آدمی جو شریف ہے۔ کیونکہ دونوں ہی مجبور ہیں۔ ایک اپنی نوکری کی وجہ سے اور دوسرا اپنی شرافت کی وجہ سے ۔