میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں عالمی امن کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ طاقت کے زور پر کسی کو زبردستی الگ تو کیا جاسکتا ہے لیکن امن کی خواہش کو دبا یا نہیں جاسکتا ، اس کی جیتی جاگتی مثال میرے سامنے دور جدید کا واحد خطہ کوریا ہے جہاں ایک ہی قومیت سے تعلق رکھنے والوں کوغیرفطری طور پر جدا کردیا گیا ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے قبل جزیرہ نما کوریا ایک متحد ملک تھا جس نے اپنے وقت کے سامراج سے پندرہ اگست 1948ء کو آزادی حاصل کی، آج بھی دونوں دشمن ممالک شمالی کوریا اور جنوبی کوریا یہ تاریخی دن ہرسال ایک ساتھ مناتے ہیں لیکن جب جنگ عظیم دوئم کی اتحادی قوتیں سوویت یونین اور امریکہ سرد جنگ میں ایک دوسرے کی مخالف ہوئیں تو انکے عزائم کا نشانہ کوریا کے معصوم عوام بنے جہاں حصولِ آزادی کے بعد سوویت یونین کے زیراثرشمالی علاقے کو شمالی کوریا قرار دیدیا گیا جبکہ جنوبی کوریا امریکہ اور مغرب کے زیرسایہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا، کوریاکوعالمی سامراجی قوتوں نے دو حصوں میں تقسیم کرکے گھروں محلوں کے درمیان بارودی سرنگوں اور آہنی باڑوں کی سرحد قائم کردی لیکن یہ سرحد بھی 1950ء کی تباہ کن کورین جنگ کی تباہ کاریاں نہ روک سکی جب دونوں اطراف کے ہزاروں لاکھوں کورین باشندے جنگ کا ایندھن بن گئے۔اگر ایک طرف شمالی کوریا نے اپنے عوام کا مستقبل جوہری ہتھیاروں کے حصول کے ذریعے محفوظ کرنا چاہا تو دوسری طرف جنوبی کوریا نے اپنے عوام کو جدید تعلیم کے ہتھیاروں سے لیس کرنا شروع کیا اور آج ریسرچ ، اسمارٹ فون، الیکٹرونکس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں جنوبی کوریاکی ترقی قابلِ رشک ہے۔ورلڈالائنس آف ریلیجن پیس (عالمی اتحاد برائے بین المذاہب امن ) کے موضوع پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کورین جنگ کی تباہ کاریوں کابہادری سےسامنا کرنے والے بزرگ امن کارکنان مان ہی لی اور نام کمِ کے غیرسرکاری ادارے ہیونلی کلچر، ورلڈ پیس، ری اسٹوریشن آف لائٹ نے کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ جب آسمانی تعلیمات کی روشنی انسان کے دل میں جگمگاتی ہے تو وہ کبھی نفرت کا راستہ اختیا رنہیں کرتا۔ سیول کانفرنس میں عالمی امن کے قیام اور جنگ کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم لئے دنیا بھر کے 156ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد پارلیمانی نمائندوں، سول سوسائٹی ، مذہبی پیشوا، سماجی کارکنوں اور میڈیا کے نمائندے شریک ہیں، مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں غیرمسلم اقلیتوں کی نمائندگی ، پاکستان ہندو کونسل کی سربراہی اور ذرائع ابلاغ میں موثر شمولیت کی بنا پرپہلے دن کے افتتاحی سیشن سے خصوصی خطاب کی دعوت دی گئی۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے عالمی مندوبین کے سامنے اپنے وطن عزیز پاکستان کا کیس احسن انداز میں پیش کیا، میں نے اپنی تقریر میں آگاہ کیا کہ پاکستان کا قیام خالصتاََ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور تحریکِ پاکستان ایک امن پسند جمہوری تحریک تھی جسکا مقصد مسلمانوں کے اکثریتی علاقے میں ایک ایسی امن پسند ریاست قائم کرنا تھا جس کے ہر شہری کو ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں، اس موقع پر میں نے قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر اور آئینِ پاکستان کا بھی حوالہ دیاجو غیرمسلم پاکستانی شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے، میرا یہ کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت امن پسند اور بردبارہے لیکن بدقسمتی سے پانچ فیصد انتہاپسند عناصر نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے، اچھے اور برے افراد دنیا کے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں لیکن کسی سماج دشمن گروہ کے انفرادی اقدام کی وجہ سے کسی ملک یا قوم کے بارے میں منفی رائے قائم کرلیناسخت ناانصافی ہے۔ہم مذہبی طور پر ہندو، مسلم، عیسائی ، یہودی یا کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ دنیا کا ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو امن و آشتی سے زندگی بسر کرنے اور دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام یقینی بنانے پر زور دیتا ہے، آج ہم جومختلف معاشروں میں مذہب کے نام پرخون خرابہ دیکھتے ہیں ، اسکے پیچھے عوامل مذہبی قطعی نہیں بلکہ سیاسی ، معاشی اورمذہب سے دُوری ہیں، اسی طرح میرے اس موقف سے مندوبین نے اتفاق کیا کہ جغرافیائی طور پر ہم پاکستانی، کورین، یورپی، امریکی اور دیگر قومیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن درحقیقت ہم سب انسان ہیں اور ہماری زندگی کا نصب العین ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوتے ہوئے خدمتِ انسانیت اور قیام امن ہونا چاہیے۔میں سمجھتا ہوں کہ جنوبی کوریا میں عالمی امن کانفرنس منعقد کروانے جیسے اقدامات مختلف مذاہب اور قومیتوں کے مابین غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں نہایت سازگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ کانفرنس کے موقع پر عالمی امن فیسٹیول کا انعقاد بھی کروایا گیا جس میں ہزاروں کورین مقامی باشندوں اور دنیا بھر کے پرچم اٹھائے افرادنے نہایت جوش و خروش سے شرکت کی، یہ ایک نہایت متاثر کن منظر تھا جب مختلف زبانیں بولنے والوں کے دل کی آواز ایک ہی تھی کہ امن کیلئے ہم سب ایک ہیں، کوریا کے باشندوں کے دل میں پھر سے کوریا کو متحد دیکھنے کی تڑپ نمایاں تھی جسکے نتیجے میں شمالی اور جنوبی حصوں میں منقسم کورین خاندان آزادانہ نقل و حرکت کرسکیں۔ کورین سماجی کارکن مان ہی لی کے امن ادارے کی جانب سے دس آرٹیکلز اور 38شقوں پر مشتمل اعلامیہ برائے امن اور اختتامِ جنگ اس امید کے ساتھ پیش کیا گیا کہ مستقبل قریب میں عالمی برادری اقوامِ متحدہ کے تحت باہمی طور پر عملی نفاذ کیلئے اپنی ذمہ داریاں اداکرنے کے قابل ہوسکے گی۔ دارالحکومت سیول میں امن پریڈکے ذریعے جنگی ہتھیاروں کے تباہ کن استعمال کو رد کرتے ہوئے ترقی و خوشحالی کیلئے کارآمد بنانے کی ضرورت پربھی زور دیا گیا، اس موقع پر عملی مظاہرہ پیش کیا گیا کہ کیسے تباہ کن ٹینک سے زمانہ امن میں زراعت کے فروغ اور دیگر تعمیری کام لیا جاسکتا ہے۔عالمی کانفرنس کے موقع پر میزبان ادارے کی جانب سے طلباء و طالبات میں امن ، برداشت، رواداری جیسی اعلیٰ خصوصیات پروان چڑھانے کیلئے نصابِ تعلیم بھی پیش کیا گیا جو فلپائن،البانیہ، کوسووو سمیت مختلف ممالک کے تعلیمی اداروں میں کامیابی سے رائج ہے۔ عالمی امن کانفرنس کی ایک اور اہم خصوصیت گلوبل پیس میڈیا نیٹ ورک کا قیام تھا جس میں ابتدائی طور پر پچاس ممالک کے سو صحافیوں نے عالمی امن کے فروغ میں قلم کو استعمال کرنے کے عزم کا اعادہ کیا،اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں جو کچھ ٹی وی اسکرین پر نشر کیا جاتا ہے یا اخبار میں شائع ہوتا ہے اسکا اثر لازمی طور پر ناظرین اور قارئین کے دل و دماغ پر پڑتا ہے، میرے لئے شرکت اس لحاظ سے نہایت اہم تھی کہ رواں برس میں نے بھی پاکستانی معاشرے میں برداشت، رواداری کے فروغ کیلئے ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کی بنیادیں رکھ دی ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کی طاقت کا مثبت استعمال یقینی بنانے کیلئے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ حاصل کیا جائے۔میں نے اپنے اختتامی کلمات میں عالمی امن اعلامیہ کے نفاذ کیلئے کچھ تجاویز بھی شرکاء کے سامنے رکھیں کہ ہم سب کو انسانیت کے ناطے ایک دوسرے سے مستحکم تعلقات استوار کرنے چاہئیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام شریک ممالک کے مابین خدمتِ انسانیت کے ایک نکاتی ایجنڈے پرغیرمشروط اتفاق ہو، میڈیا ادارے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں ، مختلف ممالک کے مابین مطالعاتی دوروں، میڈیا ایکسچینج پروگرامز متعارف کروائے جائیں اور سب سے اہم ترین عالمی برادری کی رینکنگ کاباقاعدہ نظام بھی وضع کیا جائے کہ کونسا ملک فروغِ امن کیلئے کتنی کاوشیں کررہا ہے۔ میں آپ سب سے بھی استدعا کرنا چاہوں گا کہ ہمارے کرہ ارض نے بہت خون خرابہ، نفرتوں اور جنگوں کا سامنا کرلیا، اب خدارا ہم امن و محبت سے جینے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں، خدا کرے ہم وہ وقت جلد دیکھیں جب ہمارے پیارے وطن پاکستان میں بھی دنیا بھر کے امن پسند عوام امن وآشتی کے گیت گانے کیلئے اکٹھے ہوں۔