• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر نیویارک میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مختصر گفتگو اور نائب صدر مائیک پنس سے باضابطہ بات چیت سے اگرچہ پاک امریکہ تعلقات میں برف پگھلنے کے آثار نظر آرہے ہیں مگر اس مرحلے پر واشنگٹن کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جانی چاہئے۔ امریکی صدر نے 21اگست کو افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی جس پالیسی کا اعلان کیا اس کا پاکستان میں حکومتی، پارلیمانی اور عوامی سطح پر ردعمل ہوا اور اس کے بعض مظاہر بھی سامنے آئے۔ اس حقیقت کو بہرطور نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ افراد کی طرح ملکوں کے تعلقات میں بھی اتار چڑھائو اور خفگی و گرمجوشی کے مراحل آتے رہتے ہیں مگر رابطوں، ملاقاتوں اور بات چیت کی صورت میں باہمی رشتوں کو برقرار رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ امریکہ عالمی سپر پاور ہے جس کے ساتھ پاکستان مختلف میدانوں میں سمجھوتوں کے ذریعے بندھا ہوا ہے جبکہ واشنگٹن کیلئے بھی یہ بات آسان نہیں کہ وہ اسٹرٹیجک محل وقوع کے حامل پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ عرصے تک سرد مہری برقرار رکھ سکے۔ پاک امریکہ تعلقات کی اہمیت ایسی صورت میں بہت بڑھ جاتی ہے کہ امریکہ افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور وہاں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانا چاہتا ہے۔ جہاں تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے، ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی ایسی بات کہہ سکتے ہیں جس کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ امریکہ میں متعدد تھنک ٹینک مسلسل تحقیق اور جائزوں کے ذریعے امریکی حکومت کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے ’’آئیڈیاز‘‘ فروخت کرتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر چند برسوں کیلئے نہیں بلکہ آئندہ ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اسی لئے بعض امریکی صدور کو اپنی انتخابی مہم میں کئے گئے کئی اعلانات سے روگردانی کرتے ہوئے اس طویل المیعاد حکمت عملی کی راہ پر چلنا پڑتا ہے جو پہلے سے صدیوں کیلئے بنی ہوئی ہے۔ امریکی صدر نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کئی ملکوں کیلئے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کئے تھے جن پر ایران، چین اور وینزویلا نے سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ اس منظرنامے میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، اردن کے شاہ عبداللہ، ایران کے صدر حسن روحانی، برطانوی وزیراعظم تھریسامے اور عالمی بینک کی سی ای او کرسٹالینا جارجیوا سے جو ملاقاتیں کیں ان کی اپنی اہمیت ہے مگر امریکی صدر سے ظہرانے میں رسمی ملاقات کے دوران افغان معاملے پر ہونے والی گفتگو، صدر ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کے کردار اور پاک امریکہ شراکت کے تسلسل کے بارے میں مثبت رویہ کا اظہار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ امریکی نائب صدر مائیک پنس سے وفود کے ہمراہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جو بات چیت ہوئی وہ مقررہ وقت30 منٹ سے15منٹ زیادہ جاری رہی۔ اس ملاقات میں امریکی نائب صدر نے امن اور سلامتی کے شعبوں میں پاکستان سے طویل مدتی شراکت داری کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے کا جو عندیہ دیا وہ باہمی سرد مہری کے خاتمے کا بھی اشارہ ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے اور شمالی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے جو کامیاب آپریشن کئے گئے ان کی دنیا میں مثال نہیں  ملتی۔ حقائق بھی یہی ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کے ہر ملک سے زیادہ قربانی دی ہے۔ جہاں تک افغان مسئلے کا تعلق ہے اس کا حل مکالمے میں ہی مضمر ہے۔ جس کیلئے اسلام آباد کے کردار کی ضرورت پڑے گی۔ بھارت کو افغانستان میں مؤثر کردار دینا ایسی غلطی ہوگی جس کا اندازہ افغانوں کے مزاج کو سمجھنے والے ہی کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین