• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی، ہر طرف گندہ پانی اور بدبو،بیماریاں پھیلنےلگیں، واٹر بورڈ حکام کا رویہ غیرسنجیدہ

کراچی ( طاہر عزیز / اسٹاف رپورٹر) کراچی میں صفائی ستھرائی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ مختلف علاقوں میں ابلنے والے گٹر اور سیوریج کے پانی پر قابو نہ پانا بھی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بارشوں کے بعد بند ہونے اور بیٹھ جانے والی لائنوں کو تاحال ٹھیک کرنے میں ناکام ہے۔ واٹر بورڈ حکام کا رویہ غیر سنجیدہ ہے گھروں کے پاس 24؍ گھنٹے جمع رہنےوالے گندے پانی سے بدبو اور بے شمار بیماریاں جنم لے رہی ہیں، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے افراد روزانہ مختلف علاقوں کے دورے اور میٹنگز کی خبریں جاری کرکے شہریوں کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔

متاثرہ آبادیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ مکمل ناکام دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ باالخصوص پیپلز پارٹی کے  چیئر مین  بلاول بھٹو اس کا نوٹس لیں۔ واضح رہے واٹر بورڈ براہ راست محکمہ بلدیات حکومت سندھ کے ماتحت ہے اور اس کے چیئرمین وزیر بلدیات ہیں واٹر بورڈ آج تک بیٹھ اور بند ہونے والی لائنوں کی تفصیل اورا ن کی مرمت کا شیڈول جاری کرنے میں ناکام رہاہے۔ واٹر بورڈ کے بعض اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم ڈی سید ہاشم رضازیدی سیوریج کے نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کا ثبوت ان کے دن رات مختلف علاقوںمیں دورے شامل ہیں تاہم واٹر بورڈ کے سینئر افسران اور انجینئرز تعاون کیلئے تیار نہیں۔ ذرائع اس کی ایک وجہ واٹر بورڈ میں افسران کی گروپ بندی کو بھی اس کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ٹیم ورک کے طور پر کام ہورہا ہوتا تو شہریوں کو جگہ جگہ موجود گندے پانی کے تالابوں سے نجات مل جاتی۔

اس وقت شہر کے جن لاقوںمیں سب سے زیادہ صورتحال خراب ہے ان میں نارتھ کراچی، نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، بلاک بی ، لیاقت آباد خاص کر بلاک 8,7,6,5اور 9، دستگیربلاک 9، گلشن معمار، یو سی 31، نشتر روڈ، اولڈ سٹی ایریا کےعلاقے گارڈن ویسٹ ، عثمان آباد ، غازی نگر ، رنچھوڑ لائن ، حسن لشکری ولیج ، ملیر کے تمام علاقے، حضرت سمان فارسی سوسائٹی، عظیم پورہ، گرین ٹائون، بہار کالونی ، شیر شاہ ،بلدیہ ٹائون سمیت دیگر متعدد علاقوںمیں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے بعض علاقوںمیں سیوریج کی لائنیں بارشوں سے قبل کی بند ہیں لیکن واٹر بورڈ انہیں ٹھیک کرنے میں ناکام ہے۔ واٹر بورڈ کی اپنی ماہانہ آمدنی 60؍ کروڑ روپے سے زائدہے جبکہ حکومت سندھ سے اس کے علاوہ فنڈ ملتاہے سیوریج کی مسلسل جمع رہنے سے پینے کے پانی کے آلودہ ہونے کی بھی شکایات بہت بڑھ گئی ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کے واٹر بورڈ کا شکایات کے اندراج اورانہیں حل کرنے کا اس وقت کوئی میکنزم نہیں ہے خانہ پری کیلئے جن شکایات کا اندراج کیا جاتا ہےاس کے صحیح ہونے کے بارے میں صارف سے معلوم نہیں کیا جاتا۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق شہر کے 40؍ فیصد علاقے میں سیوریج کا سسٹم تباہ ہوچکاہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ پانی نہ ملنے اور سیوریج کی شکایات کےباوجود واٹر بورڈ کومسلسل بل ادا کرر ہے ہیں اگر صورتحال برقرار رہی تو آنےوالے دنوں میں واٹر بورڈ کو بلوں کی ادائیگی متاثر ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین