اسلام آباد خبروں اور افواہوں کا گڑھ ہے لیکن ابھی تک خبر اور افواہ میں حد فاضل قائم نہ ہونے کے طفیل دونوں میں تفریق نہیں کی جاسکتی۔ بے یقینی اور بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ کبھی اچھی بھلی خبر افواہ ثابت ہوتی ہے اور کبھی ہر طرف سے افواہ نظر آنے والی شے خبر نکل آتی ہے۔ آج کل بھی اسلام آباد میں ایک افواہ گرم ہے اور وہ یہ کہ موجودہ وزیراعظم جا رہے ہیں اور ان کی جگہ پر ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور مخدوم آ رہے ہیں۔ امیدوار مخدوم کے پاس نے امریکہ اور آرمی کو قائل کرنے کیلئے صرف ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور یہ کہ وہ ”مسٹر کلین“ ہے۔ شنید یہ ہے کہ ہر دو فریقین تو اس یک نکاتی ایجنڈے پر راضی ہیں لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ دوسرے مخدوم کو پارٹی کے اندر بھی کسی قسم کی کوئی پذیرائی حاصل ہے؟سچی اور دل کو لگتی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی ، ان کے خاندان اور کئی قریبی دوستوں سے منسوب مال بنانے کے قصے سو فیصد درست نہ بھی ہوں مگر سچائی کا تناسب اتنا زیادہ ضرور ہے کہ شک کا فائدہ دے کر بری کرنے کی حد کہیں نیچے رہ گئی ہے۔ ”رینٹ اے کار“ کے بزنس سے متعلق کئی لوگ ان کے مقربین خاص ہیں اور اس کام سے وابستہ قصے بھی اب سرگوشیوں کی حد سے آگے نکل چکے ہیں لیکن کیا ان کے زیر سایہ دیگر مصروف عمل وزراء اور ممبران اسمبلی وغیرہ کو ”مسٹر کلین“ وزیراعظم قبول ہوگا؟ صدر زرداری کے زیر کنٹرول پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی جس موج میلے کے عادی ہوچکے ہیں بھلا وہ اس سے دستبردار ہونے پر کیسے تیار ہوں گے اور خود صدر زرداری کسی وزیراعظم کو صرف اور صرف کرپشن کے جرم میں کس منہ سے فارغ کریں گے؟
گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم گیلانی نے ملتان کے صحافیوں کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ کچھ دوستوں نے یہ طے کیا تھا کہ اس نشست میں صرف وزیراعظم کی گفتگو سنی جائے گی اور ناشتہ کیا جائے گا نہ تو کوئی سوال کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی وضاحت مانگی جائے گی۔ مجھ سمیت تین دوستوں نے مکمل طور پر اس معاہدے کی پاسداری کی۔ دو نے جزوی خلاف ورزی اور دو نے کھل کر اس معاہدے کے پرخچے اڑائے۔ سوال و جواب کی نشست میں ایک دوست نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں ملتان کے دوسرے مخدوم کے بارے میں افواہیں گردش کررہی ہیں کہ وہ نئے وزیراعظم کے طور پر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے (یہ مسکراہٹ ان کی عمومی مسکراہٹ جیسی خوبصورت ہرگز نہیں تھی) سرائیکی میں کہا کہ ”ساڈے وچوں تاں سوئی وی نئیں لنگھدی“ (ہمارے درمیان میں سے تو سوئی بھی نہیں گزرتی۔ یہ سرائیکی میں بہت زیادہ قربت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے)۔ سید یوسف رضا گیلانی کی یہ بات سن کر مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آگیا۔ کسی نے ہمارے ایک مرحوم بزرگ مربی سے ایک خاص ذات کا حوالہ دے کر پوچھا کہ کیا اس قوم کی کسی لڑکی غیرذات کے لڑکے سے شادی ہوسکتی ہے؟ وہ صاحب غضبناک ہو کر کہنے لگے کہ آپ کے دل میں اس قسم کا فاسد خیال پیدا ہی کس طرح ہوا اس کے دماغ میں یہ قبیح سوچ کیسے داخل ہوئی کہ کسی (ذات کا نام لے کر) لڑکی کی شادی کسی غیر (پھر ذات کا نام لے کر) سے ہو جائے۔ ایسی کسی لڑکی کی شادی اپنی ذات سے باہر نہیں ہوسکتی۔ پھر تھوڑا سا وقفہ لے کر بولے ہاں اگر لڑکی کسی غیرذات والے لڑکے کے ساتھ نکل جائے تب دوسری بات ہے مجھے سید یوسف رضا کی بات سن کر یہ واقعہ اس لئے یاد آگیا کہ ان کے اور دوسرے ملتانی مخدوم کے درمیان سے سوئی تو نہیں گزر سکتی مگر درمیان سے وزارت عظمیٰ گزر جائے تو دوسری بات ہے۔
ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ بابر اعوان کرائے پر جہاز لے کر غریب قوم اور مظلوم ٹیکس گزاروں کے ادا کردہ ٹیکس کو کس کی اجازت سے اور کس مقصد کے لئے اڑا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے مسکرا کر جواب دیا کہ مناسب ہے کہ آپ یہ بات متعلقہ وزیر سے دریافت کریں۔ ایک اور صاحب نے رحمان ملک کی کسی بات کا دریافت کیا تو وزیراعظم نے وہی جواب دوبارہ مقرر ارشاد فرما دیا کہ آپ یہ بات رحمان ملک سے دریافت کریں۔ میرے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک دوست نے سرگوشی کی کہ یہ دونوں سوالات ایسے وزیروں کے بارے میں ہیں جو جناب وزیراعظم کے کوٹے یا صوابدید سے نہ تو وزیر بنے ہیں اور نہ ہی وہ وزیراعظم صاحب کو جوابدہ ہیں۔ اب بھلا وزیراعظم اس کے علاوہ اورجواب دے بھی کیا سکتے ہیں؟
وزیراعظم گیلانی نے گفتگو میں فرمایا کہ کرپشن پوری قوم کا مسئلہ ہے اور پارلیمنٹ اور کابینہ کے ارکان بھی اسی معاشرے سے منتخب ہو کر آ رہے ہیں۔ لہٰذا ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں کہ وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس طرح بالواسطہ طور پر وزیراعظم نے حکومت پر کرپشن کے الزامات کا شافی جواب دے دیا اور بین السطوریہ پیغام دے دیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ یہ کوئی خلاف معمول یا قابل اعتراض بات نہیں ہے اور لوگوں کو اس پر نہ تو حیرانی ہونی چاہئے اور نہ ہی کوئی اعتراض کرنا چاہئے۔ اس طرح وزیراعظم نے اس موضوع پر کسی بہتری کے امکان کا دروازہ ہی بند کردیا۔
ناشتے کے بعد وزیراعظم سے ایک علیحدہ نشست کا اہتمام تھا جس میں ملتان سے چھپنے والے قومی اخبارات کے ایڈیٹرز اور راقم کے ساتھ ملتان میں وزیراعظم ترقیاتی پیکیج کے تحت ہونے والے ترقیاتی کاموں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس بات پر سب لوگوں کا اتفاق تھا کہ ملتان میں ہونے والے اس ترقیاتی کام کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس ترقیاتی پیکیج کے طفیل ہی پنجاب کے حالیہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے ماضی کے مقابلے میں غیرمعمولی رقم رکھی گئی ہے۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار کمشنر ملتان محمد علی گردیزی اور وزیراعظم کے پی ایس او یوسف نسیم کھوکھر کی انتھک محنت اور مسلسل نگرانی کی وجہ سے اپنے طے شدہ شیڈول سے آگے جا رہی ہے۔ وزیراعظم کے کمرے کے باہر بیٹھے ہوئے مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سردار لطیف کھوسہ سے ایک دوست نے پوچھا کہ کیا بابر اعوان کسی خاص مشن پر نکلے ہوئے ہیں؟ لطیف کھوسہ نے مسکرا کر پہلے تائید میں سر ہلایا پھر باآواز بلند کہا کہ وہ واقعی کسی خاص مشن پر ہیں۔ناشتے کے فوراً بعد وزیراعظم ملتان ایئر پورٹ پر نوتعمیر شدہ رن وے کا افتتاح کرنے اور نئے انٹرنیشنل ٹرمینل کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے ایئر پورٹ چلے گئے۔ نئے ٹرمینل کی عمارت قریباً چار ارب روپے کی لاگت سے تیار ہوگی۔ اس ٹرمینل کی تعمیر کا ٹھیکہ شنید ہے جس کمپنی کو دیا گیا ہے اس نے جلالپورپیروالا کے الیکشن میں خاصا خرچہ کیا تھا۔ اس کمیشن کے پاس ایئر پورٹ ٹرمینل تعمیر کرنے کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اس ٹرمینل کی تعمیر کے لئے ملتان ایئر پورٹ کا رن وے وقت سے پہلے تعمیر کرنے والی چینی کمپنی بھی امیدوار تھی لیکن اسے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرکے موجودہ کمپنی کو نوازا گیا۔ ایئر پورٹ پر ہونے والی اس تقریب میں قریباً ایک ہزار مہمان مدعو تھے اور فی کس ریفریشمنٹ کی ادائیگی سیکڑوں روپے میں نہیں بلکہ ہزاروں روپے میں کی گئی۔ اس تقریب کا اندازہ اگرچہ پچاس لاکھ روپے کے لگ بھگ تھا تاہم یہ بابر اعوان کے روزانہ کے خرچے سے کہیں کم ہے۔ بابر اعوان نے ایئر فورس کے جہاز پر اس طوفانی دورہ برائے خریداری ضرورتمندان پر کل کتنی رقم خرچ کی ہے۔ ابھی پردہ غیب میں ہے لیکن یہ کل رقم اتنی ضرور ہے کہ اگر بھوک سے خودکشی کرنے والے کسی شخص کو بتا دی جائے تو وہ حیرانی سے مر جائے۔