• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے شہر پونے میں ایک سینئر خاتون سائنسدان ڈاکٹرمدھونایک کھولے نے اپنی خانساماں نرملا دتاتریہ یادو کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی کہ اس نے دھوکہ دہی کرکے ان کے ہاں نوکری حاصل کی۔ ڈاکٹر کھولے جو کہ بھارتی حکومت کے محکمہ موسمیات کی علاقائی شاخ کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیں نے الزام لگایا کہ یادو نے اپنی ذات اور ازدواجی حیثیت چھپا کر ان کے گھر میں کام حاصل کرلیا حالانکہ انہیں اعلانیہ طور پر ایک ایسی خاتون درکار تھی جو برہمن ہونے کے ساتھ ساتھ سہاگن بھی ہو جو انکے گھر میں مختلف مذہبی تقریبات اور اجتماعات پر کھانا بنا سکے۔
ڈاکٹر کھولے کے مطابق ان کو حال ہی میں ایک ہندو پجاری کے ذریعے معلوم ہوا کہ انکی خانساماں نہ صرف یہ کہ برہمن ذات سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ کہ وہ ایک بیوہ ہیں جس سے انکے مذہبی جذبات مجروح ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مقامی تھانے میں یادو کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کروائی جن میں دھوکہ دہی، تذلیل اور مذہبی معاملات میں مداخلت وغیرہ سے متعلق دفعات شامل ہیں۔نرملا یادو نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جوابی ایف آئی آر دائر کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے کبھی بھی اپنی ذات یا ازدواجی حیثیت کے بارے میں کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کی اور الٹا یہ شکایت کر ڈالی کہ ڈاکٹر کھولے نے ان سے کئی تقریبات کیلئے کھانا پکوایا اور اب وہ پیسے نہ دینے کے چکّر میں ان پر مختلف قسم کے الزامات لگا رہی ہیں۔انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ موسمیاتی سائنس دان نے ان کو بتایا کہ نچلی ذات سے تعلق اور بیوگی کی وجہ سے انکا بھگوان ناپاک ہو گیا۔
آزادی کے بعدبھارت میں تعلیم، سائنس اور دیگر تعمیری شعبوں میں نمایاں اور مؤثر تبدیلی رونما ہوئی ہےمگر اسکے باوجود ذات پات کا نظام اور اس سے منسلک ظلم، جبر اور تشدد آبادی کی ایک بڑی اکثریت کو متاثر کرتا ہے۔ معاشی اور علمی سطح کی ترقی کے باوجود لوگ ا ب تک ذات پات کے گورکھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور یہ نہ صرف انکی انفرادی اور اجتماعی شناخت اور مذہبی عقیدے کا ایک جزولاینفک ہے بلکہ سماجی روابط اور نقطہ نظر بنانے اور سنوارنے کا بھی موثر ذریعہ ہے۔
شہری علاقوں میں جگہ کی کمی اور آبادی کے مسلسل بہاؤ اورپھیلاؤکے علاوہ بڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر انحصاراور ضرورت کی وجہ سے اس تفریق کا اثر کم تو دکھائی دیتا ہے مگر سماجی تقریبات اور مذہبی رسومات میں ذات پات کے عمل دخل کا بھر پور مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حتی کہ موت اور اسکے بعد لاش کی آخری رسومات میں بھی ان معاملات کی بھر پور مداخلت ہوتی ہے۔
ان حالات میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ تفریق اور تعصّب کا یہ سلسلہ ملک کی بڑی بڑی دانش گاہوں میں سرایت کر گیا ہے۔اس امتیاز کے بارے میں اساتذہ کے ایک گروپ نے ان شرمناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے عدالت میں ایک بیان حلفی دیا کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والا طلبامسلسل طور پر انتظامی سطح پر استحصال، تحقیر، معاندانہ روئیے جیسی اذیتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان مشکلات سے تھک ہار کر کئی دلت طلبہ خودکشی کرتے ہیں۔چند سال قبل یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی جانب سے خودکشی کے واقعات پر ایک تحقیقی سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ لگ بھگ ایک دہائی میں مرنے والے پچیس طلبہ میں تیئس کا تعلق دلت برادری سے تھا۔اتنی زیادہ تعداد میں دلت طلبہ کی خودکشی کے واقعات بڑے مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں۔
پچھلے سال حیدرآباد دکن میں قائم حیدرآباد یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی کے طالبعلم روہت ومولا نے یونیورسٹی کی جانب سے مسلسل پریشان اور ہراساں کئےجانے کے باعث خودکشی کر لی۔ومولا ذات پات کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ امبیڈکر اسٹوڈنٹس یونین کے متحرک کارکن تھے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں دلت طلبہ کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے۔
برہمن اشرافیہ کی دلتوں کے خلاف ہزاروں سالوں سے جاری معاندانہ روش کی وجہ سے حکومت ایسی خودکشیوں کو یا تو نظرانداز کرتی ہے یا ان پر تکنیکی بنیادوں پر مختلف قسم کی تاویلیں پیش کرتی ہے تاکہ سرکاری اداروں میں جاری عصبیت سے دھیان ہٹایا جائے جس کے اعتراف سے حکومت کو کافی خفت اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس قبیح عمل کو روکنے کیلئے دباؤ بڑھ جائے گا۔ روہت ومولا کی خودکشی پر پورے بھارت میں دلت اور دیگر انصاف پسند حلقوں کی جانب سے شدید غم اور غصّے کا اظہارکیا گیا جسکی وجہ سے حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کےلئےایک کمیشن مقرر کیا۔گزشتہ مہینے کمیشن نے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جس کے مطابق ومولا نے ذاتی وجوہات کی بنا پر خودکشی کی اور یہ کہ کوئی اور اس کی موت کا ذمہ دار نہیں ہے۔مزید برآں کمیشن نے یہ بے معنی دعویٰ بھی کیا کہ ومولا دلت نہیں بلکہ ایک اور پچھڑی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔
اگرچہ ہندوستان میں گزشتہ تین ہزار سال میں سینکڑوں قسم کی سیاسی اور سماجی تبدیلیاں واقع ہوئیں مگر ذات پات کا نظام کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کے بغیر نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ یہ اپنی سرحدوں سے نکل کر دنیا کے ہر اس حصّے میں پھیل گیا ہے جہاں ہندوستانی نژاد لوگ پچھلی ایک صدی سے آباد ہیں۔برطانیہ میں قائم دلت سولیڈیرٹی نیٹ ورک گزشتہ کئی دہائیوں سے نچلی ذات کے ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ انکے ساتھ اونچی ذات کے ہم مذہبوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہے۔
چار سال پہلے اس گروپ کی وجہ سے ہی برطانیہ میں پہلی بار ذات پات کی بنیاد پر ناروا سلوک کو سرکاری سطح پر تسلیم کرکے اس کے خلاف قانون سازی کا وعدہ کیا گیا۔افسوس کہ موجودہ ٹوری حکومت اونچی ذات کے ہندو جو کہ ملک میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں کی ناراضی کے خوف کی وجہ سے اب یہ قانون بنانے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔
اپنے حقوق کے حصول کے لئےدیگر مغربی ممالک میں بھی اب دلت جدوجہد میں مصروف عمل ہو گئے ہیں۔ خاص کر امریکہ میں اب کئی دلت گروپ بھارت کے اندر اور باہر اپنے حالات سے دنیا کو باخبر رکھنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔اپنے حقوق کے حصول کیلئے انہیں اونچی ذات کے ہندو گروپوں سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے جو ذات پات اور اس سے وابستہ زیادتیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تاریخی حقائق کو یا تو مسخ کر رہے ہیں یا اس کی من پسند تاویلیں پیش کرکے دلتوں سے ہونے والی زیادتیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس زیادتی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ان ممالک میں بھارت یا اس کے کلچر کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی انجمنوں یا اس قسم کے اداروں پر عموماً اونچی ذات کے ہندوؤں کا قبضہ ہے۔ اس وجہ سے نچلی ذات کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات پر کوئی توجہ تو دور کی بات ان پر کوئی بحث بھی نہیں کر سکتا۔ اس طرح ان کے حقوق پر دن دھاڑے ڈاکہ مارا جاتا ہے۔

تازہ ترین