• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی مفاہمت کا تصور اپنی جگہ بہت خوش کن ہے لیکن اگر مفاہمت سیاسی بدی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور خطا کاروں کو تحفظ دینے کیلئے کی جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ برے نکلتے ہیں اور سیاسی بحران میں اضافہ ہوتا رہتا ہے عوام کی خاموش اکثریت ایک ایسی اذیت سے گزر رہی ہوتی ہے جس کا اندازہ ایوانوں میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے لئے ان عوام کے دلوں میں اترنا پڑتا ہے جن کی چھتیں بارش کے پانی کا بوجھ نہیں سہار سکتیں اور بارش اندر باہر ایک جیسی برستی ہے، دھوپ کی کرنیں چھن چھن کر جسموں کو چھلنی کئے دیتی ہیں۔ کرپشن کی کہانیاں میڈیا میں آتی جاتی ہیں اور بھولے بھالے عوام کو دل گرفتہ کئے جاتی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، امن و امان پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ یہ بڑا اذیت ناک منظر ہے کہ
دروغ و کذب کے سکّے اٹھا کے لائے ہیں
جنوں کا حرف صداقت خریدنے والے
دلوں میں جھانک کے اک روز دیکھ تو لیتے
دلوں کو حسب سیاست خریدنے والے
سحر انصاری کی شعری حسیت جو ان کے ان دو شعروں سے فال دے گئی ہے اور مستقبل کو بیان کر رہی ہے اور حیرت زدہ فکری تغیر کو ظاہر کر رہی ہے اور عوامی اجتماعی ذہن کی نمائندہ بن گئی ہے سرنگ کے دوسری طرف امید کا بگل بج رہا ہے۔پاکستان جن کٹھن مرحلوں سے گزر رہا ہے باہر کے اور اندر کے لوگ اس کے وجود سے برسرپیکار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نظام میں گڑبڑ ضرور ہے جس کی وجہ سے دکھ کا لمحہ ختم ہونے میں نہیں آتا اور بڑھتا ہی جاتا ہے۔ عصری اجتماعی حسیت اس کو زمانی اور مکانی پردوں پر آویزاں کر رہی ہے تاکہ زمانہ اس کو جھٹلا نہ سکے۔
لاہور میں حضرت علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش کے آستانے پرخودکش حملہ کر کے جنہوں نے اس کے تقدس کو پامال کیا انہوں نے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کر دیا یہ ان محسنوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے برصغیر سندھ و ہند میں اسلام کی شمع کو روشن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مساعی جمیلہ کو دین کے فروغ کیلئے قبول فرمایا۔ شیخ ابوالفضل محمد بن الحسن حنلی جو داتا صاحب کے مرشد تھے انہوں نے ان کو لاہور جانے کا حکم دیا۔ وہ اس وقت دمشق کے نواح میں بیت الجن نامی بستی میں تھے۔ آپ لاہور کے لئے روانہ ہوگئے۔ جب آپ لاہور پہنچے تو اگلی صبح حضرت شیخ زنجانی کا انتقال ہوگیا۔ فوائد الفواد جو حضرت نظام الدین اولیاء کے مخاطبوں و ارشادات پر مبنی کتاب ہے اس کی روایت کے مطابق حضرت علی ہجویری اور حضرت حسین زنجانی دونوں ایک ہی مرشد کے مرید تھے۔ حضرت داتا گنج بخش کے ہاتھوں پر ہزاروں غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا اس وقت پنجاب کا نائب حاکم ”رائے راجو“ تھا اس نے اسلام قبول کر لیا۔ برصغیر میں چشتیہ سلسلے کے بانی اور عظیم اسلامی مبلغ و صوفی سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے آپ کے مزار پر 1106ء میں حاضری دی وہاں چلہ کیا اور جب وہاں سے رخصت ہوئے تو یہ شعر کہا جو عقیدت و احترام کی انتہا ہے۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصان را پیر کامل کاملاں را رہنما
”کشف المعجوب حضرت علی ہجویری کی بلند پایہ تصنیف ہے اس کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کا ارشاد ہے کہ ”جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب کے مطالعے سے مرشد مل جائیگا ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کو پامال کرنے کی کوشش جس نے اپنی ساری زندگی دین کی روشنی پھیلانے میں گزاری سارے پاکستان کو دکھی کرگئی۔ہمیں ہمارا دین بتاتا ہے کہ ”افلاینظروں“ تو ہم حالات پر نظر کیوں نہیں رکھتے ہمیں یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ باہر والوں کا ایجنڈہ کیا ہے، امریکہ کیا کر رہا ہے، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، یورپ اور امریکہ والے اور اسرائیل کیا گیم کر رہے ہیں ہمارے وجود کیخلاف، ہمارے نظریات کے خلاف، ہماری اقدار اور تہذیبی روایات کے خلاف۔ جب قرآن حکیم غور کرنے کیلئے کہہ رہا ہے تو ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے حکمران اور قوم افلایتفکرون کو بھولی بیٹھی ہے نہ وہ بلوچستان کے اندر ہونے والی گڑبڑ پر غور کر رہے ہیں اور نہ اس کی وجوہات پر اور یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ مسائل کو دیکھنے اور اس کی جڑ تک پہنچنے کیلئے غور کی ضرورت ہے اور غور کرنے اور تدبیر کیلئے علم کی ضرورت ہے اور اس میدان میں مسلمان یہاں کا ہو یا مشرق وسطیٰ کا یا کہیں اور کا وہ علم کے میدان میں یورپ والوں سے، اہل افریقہ سے ، روسیوں سے، چینیوں سے بہت پیچھے ہے جب تک مسلمان علم کے میدان میں آئے تھے وہ تسخیر فطرت کے میدان میں بھی آگے تھے علم مسلمانوں کا سب سے بڑا ہتھیار تھا علم اور حکمت ہی خیر کثیر ہے۔ رسول اکرم دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما۔ اگر علم ہوگا تو لوگ اللہ سے ڈریں گے آخرت میں انجام کا خوف ہوگا وہ بدی سے بچیں گے۔ نہ وہ لوٹ مار کریں گے نہ کرپشن میں ملوث ہوں گے دکھ کا لمحہ اسی وقت ختم ہوگا جب ہم نبی پاک کی پیروی کریں گے۔ حضرت بابا فرید گنج شکر کے کتنا بڑا سچ اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔
جلی یاد کی کرنا ہر گھڑی یک تل حضور سوں ٹلنا نہیں
اٹھ بیٹھ میں یاد سوں شاد رہنا گواہ دار کو چھوڑ کے چلنا نہیں
ہمارے دکھ اسی وقت ختم ہوں گے ہمیں مقام عظمت اسی وقت ملے گا ہمارے یہاں خوشحالی اسی وقت آئے گی جب قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور یہ ممکن ہے ہمارے اہل علم نے اور حکمرانوں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ پاکستانی کو جوہری طاقت بنانا ہے تو انہوں نے اس کا علم حاصل کیا اور جوہری طاقت بن گئے جس دن اللہ کی توفیق سے ہم نے یہ ارادہ کیا کہ ہمیں معاشی میدان میں، صنعت و حرفت میں خود کفیل ہونا ہے تو یہ معجزہ رونما ہو جائے گا۔ اس کیلئے دیانت اور امانت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اللہ اس قوم کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت خود بدلنا چاہتی ہے، جاپان میں کیا ہوا، کوریا میں کیا ہوا، ملائیشیا میں کیا ہوا، چین میں کیا ہو رہا ہے۔ جنگ عظیم دوم سے تباہ شدہ یورپ میں کیا ہوا معجزہ رونما ہوا آج وہ دنیا کے لیڈر اس کیلئے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کمٹ منٹ کی دیانت داری کی اور امانت داری کی ضرورت ہے۔ جزا و سزا کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے آئین کو بدلنے کی نہیں آئین پر چلنے کی ضرورت ہے۔
















تازہ ترین