• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابا کا دیا ہوا لوہے کا ٹرنک اور ہجرت کا زخم

The Fathers Iron Trunk And The Migration Of Wound

’’تقسیم ہند سے یہ با ت واضح ہو جاتی ہے کہ جنم نئے ملک کاہو یا نئی زندگی کا، بڑا جان لیوا عمل ہے۔دونوں مذاہب کو لوگوں کے جذبات عروج پر تھے۔ حالات ایسےتھےکہ بچوں کے دلوں میں بھی مذہبی جذبات عروج پر تھے۔‘‘

یہ کہنا تھا اٹھاسی سالہ نسیم الحق نقوی صاحب کا،جنہوںنے 1947میں پاکستان آمد کے وقت کی یادیں ہم سے تازہ کیں ۔ انھوں نے مزید بتایا ’ جب پاکستان بنا، میںپندرہ سال کا تھااورگھر سے دور بدایوں میں پڑھ رہا تھا ۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔‘‘

اس وقت کے ماحول کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہندوگھرانے تو پھر بھی فیصلے کر چکے تھے کہ وہ ہندوستانی تھے اور ہندوستانی ہی رہیں گے جبکہ مسلم گھرانوں میں بڑی الجھنیں تھیں۔ ہمارا گھر قاضی محلے میں تھا ۔خاندان کے مسلم لیگی اور کانگریسیوں کے درمیان ہر وقت بحث چھڑی رہتی۔ کانگریسی کہتے کہ جب پاکستان جانا ہی نہیں تو پاکستان کو ووٹ کیوں دیں؟ پھر کون اپنی مٹی ، زمیند اری، بسے بسائے خاندان اور اپنے آبا ء کی قبروں کو چھوڑ کر جاتا ہےجبکہ نوجوان پاکستان زندہ باد کا جذباتی نعرہ بلند کرتے ۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان دلوں میں بستاہے۔یہ زمین پاکستان میں شامل ہو نہ ہوو وٹ پاکستان کا ہے‘

نقوی صاحب کے چہرے پرپر انی یادوں کی پرچھائیاں اورجوش محسوس کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے پر جوش آواز میں بتایا کہ اس وقت بڑٹش گورنمنٹ کا اصول تھا کہ جو ٹیکس دے گا، وہ ہی ووٹ ڈالے گا۔مجھے اچھی طرح یا دہے کہ ہمارے گھر والوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا ۔ بیل گاڑی پر بیٹھاکرمیںاپنی اچھی خالہ اور والدہ کو ووٹ ڈلوانے لے کر گیا تھا۔

ریفرنڈم بھی ہو ا ، چھ جون کا کیبنٹ پلان بھی ۔ اور تقسیم کے نتیجے میں دو ملک بھارت اور پاکستان بھی بن گئے ۔انہیں آج بھی یاد ہے جب پندرہ اگست کو سہسوان میونسپل کی عمارت پر ترنگا لہرایا گیا تھاجو آزادی ہند کا ترجمان تھا۔ ان کے محلے میں ہلچل ضرور تھی لیکن مسلمان گھبرائے ہوئے نہیں تھے۔ ’’یہ سمجھ لو میری بہن کی شادی اور پاکستان کا قیام ایک ہی دن ہوا ۔ ہاں ! مگر پندرہ اگست کوولیمہ منسوخ کر کے کھانا قریب کے گاؤں سے آئے ہوئے لوگو ں تک پہنچا دیا گیا کہ ہندوؤں نے ان کے گھروں کو آگ لگا دی تھی۔

اس وقت کا نقشہ انھوں نے اس طرح کھینچا کہ" پورے ہندوستان میں ہی افراتفری کا عالم تھا۔عجیب خوف تھا۔ پوری پوری ٹرینیں کٹ رہی تھیں۔ اخبار بلوؤںاور قتل و غارت گری سے سیاہ رہتے۔ سال سوا سال میں ہی قائد اعظم انتقال کرگئے اور گاندھی اپنے ہی پیاروں کی مذہبی جنونیت کا شکار ہو ئے۔ حیدرآباد ریاست ہڑپ کر لی گئی اور کشمیر پر ریفرنڈم کرانے کے فیصلے کو واپس لے لیا گیا کانگریسی مسلمان چپ کاروزہ رکھ کر ایک طرف بیٹھ گئے ۔انھیں اب نہرو اور پٹیل کی سیاست بڑوں کو سمجھ آنے لگی تھی ۔مسلمانوں کا کاروبار تباہ اور زمینداری نظام ختم ہوچکاتھا "

پھر وہ کیا سبب تھا جس نے ان کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا؟ اس بارے میں نسیم الحق صاحب کا کہنا تھا کہ" ان کے تایا جو انڈین پولیس میں تھے. پاکستان جاتے ہوئے ان کے خاندان کو لینے آئے ۔ والد نے پہلے پہل انکارکیا پھر کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کوساتھ لے جائیں ۔ وہ بیٹیوں کے ساتھ ان حالات میں سفر نہیں کر سکتے مگر میں جانے پر راضی نہ ہوا اور گھر سے بھاگ کر بھوپال اپنی خالہ کے پاس چلا گیا۔ منی پاکستان کہلانے والا بھوپال ابھی ہندوستان کا حصہ نہ بناتھا"

انہوں نے مزید بتایا کہ" سن پچاس میں بدایوں کے مشہور ڈاکٹر عابد کی شرنارتھیوں کے ہاتھوں شہادت نے مسلمانوں کو خو ف زدہ کر دیا ۔ وہ مسجد جاتے ہوئے کرپانوں کا شکار ہوئے۔ اب والد صاحب بھی پریشان تھے ۔ میں بھی سمجھ رہا تھا کہ اب جانا ہوگا ۔ مجھے میٹرک کے پرچے دیتے ہی والد صاحب نے اپنے علی گڑھ کے دوست ڈاکٹر ترمذی کے ساتھ پاکستان روانہ کردیا۔ سب لوگ ہی سامان اونے پونے بیچ رہے تھے۔

جب ہم پاکستان کے لئے چلے تو مت پوچھیں کیا عالم تھا ۔اماں ،بہنوںکی گیلی آنکھیں پاکستان میں بھی کئی دہائیوں تک میرا پیچھا کرتی رہیں ۔

سفر کا احوال انھوں نے اس طرح بتایا کہ’مئی کی چلچلاتی ہوئی گرمی کے ساتھ جذبات کی گرمی بھی عروج پر تھی۔ ابھی آگرہ مونا باو اسپیشل ٹرین پلیٹ فارم پر آ کر لگی ہی تھی کہ لوگ ٹرین پر پل پڑئے۔ بچہ، بوڑھا ،عورت،اور مرد ہر ہاتھ میں کچھ نہ کچھ تھا ۔سب ایک دم پاکستان پہنچ جانا چاہتے ہیں ۔ خود ان کے ہاتھ میں بھی ایک لوہے کا ٹرنک تھا ۔ جو کئی دہائیوں تک اس سفر کی یادگار بن کر ان کے ساتھ رہا۔بارہ گھنٹے کا سفر سات دن میں طے ہوا۔

’مت پوچھو ! وہ سات دن کیا تھے۔ سولہ سترہ سال کا نو عمر لڑکا۔ زندگی کا پہلاانجان رستوں پر سفر۔ بچپن گھر اور اسکول چھوٹ جانے کا احساس ۔ ہجرت ، مستقبل کاخوف اور دہشت کااحساس "

یادوں کے سفر پر نکلے ہوئے نسیم الحق نقوی صاحب نے بتایا کہ پاکستان پہنچتے ہی فکرتھی کہ پیچھے رہ جانے والے خاندان کو جلد سے جلد بلائیں لیکن ان کے ماں باپ پاکستان مستقل نہ آسکے۔انڈیا میں ہی بہنوں کی شادیاں ہوتی گئیںاور والدین کو کبھی بیٹا پکارتا تو کبھی پیچھے رہ جانے والی بیٹیوں کی گونجتی آوازیں۔

انہیں ان حسرتوں کے ساتھ جینا پڑا ۔ بچھڑ نے والا خاندان پھر کبھی ایک نہ ہو سکا۔ بہنوں سے ان کا اکلوتا بھائی چھٹا، تو بھائی سے پورا خاندان۔ ۔ لیکن ان کے پاس نہ والدین رہے نہ بہنیں ۔

ماضی میں گھومتے ہوئے نسیم الحق نقوی صاحب نے پھر سے کہنا شروع کیا کہــ" ان ستر سالوں میں دو سے تین بار پلٹ کرہندوستان گئے لیکن وہاں نہ اپنا گھرتھا نہ اپناشہر۔ لامکانی سی لامکانی تھی۔

نم آواز کے ساتھ انھوںنے کہا کہ کیسے کیسے زندگی میں لمحے آئے ۔جب انہیں اپنے خاندان کی اور ان کے خاندان کو ان کی ضرورت تھی۔ کبھی سرکاری نوکری آڑے آئی۔ کبھی ویزہ نہ ملا تو کبھی این او سی۔ ہزار رکاوٹیں ، ہزار پریشانیاں ۔آج ان کاسب سے بڑا قلق یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے جنازے کو کندھا نہ دے سکے ۔

 

 

 

 

تازہ ترین