• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدانوں کی چالاکیاں عروج پر ہیں۔ ایک پارٹی احتساب کورٹ کے ساتھ تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، ایک ایک کر کے پیش ہونے والوں کی خواہش ہے کہ جتنی تاخیر ہو سکے ہو جائے تاکہ کوئی سبیل نکل آئے۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب اسلام آباد کی سڑکوں پر روٹ لگایا گیا، ایک شخصیت گزر گئی اور دوسری ہستی کی گاڑی کے سامنے لائے گئے کارکن لیٹ گئے، کچھ گاڑی پر چڑھ گئے، کچھ نے گاڑی پر حملہ آور ہو کر قانون کا احترام کیا۔ کیا ملک ہے کہ جہاں دولت لوٹنے والوں کااستقبال ہوتا ہے، ان کے لئے سڑکیں بند ہوتی ہیں، وہ قانون کے احترام کا نام تو لیتے ہیں مگر قانون توڑتے ہیں، انہیں عدالتیں اور انصاف ایسا چاہئے جو ان کے حق میں ہو، عجیب لوگ ہیں اگر ان کے خلاف فیصلہ آ جائے تو اس پر تنقید کرتے ہیں، ججوں کو برا بھلا کہتے ہیں، انہیں پانچ افراد کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، بیرونی دنیا میں دولت کے ڈھیر لگانے والوں سے اگر پوچھ لیا جائے کہ حضور یہ دولت کیسے بن گئی، پاکستان سے پیسہ باہر کیسے گیا؟ تو ان سوالوں کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ انتقامی کارروائی ہے۔ ججز پر تنقید فیشن بن گیا ہے، پتا نہیں عدالتیں کیوں خاموش ہیں ورنہ یہاں ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب سبزی مہنگی ہونے پر سووموٹو لیا جاتا تھا۔ سابق نا اہل وزیراعظم کی بیٹی ایک تسلسل سے عدلیہ کی توہین کر رہی ہیں، وہ اپنے بھائیوں کے بارے میں ارشاد فرماتی ہیں کہ ان دونوں پر اس ملک کے قوانین لاگو نہیں ہوتے، پتا نہیں وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟ ملک کا وزیراعظم سندھ کی دھرتی پر ارشاد کر رہا ہے کہ’’مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جا رہا‘‘ ضیاء الحق کے قریبی ساتھی خاقان عباسی کے صاحبزادے شاہد خاقان عباسی ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ کون مینڈیٹ کا احترام نہیں کر رہا، وہ تو خود وزیراعظم ہیں، پورے ملک پر ان کی حکومت ہے، درجنوں کے حساب سے ان کے وزیر ہیں، ان کی حکومت جو ترمیم چاہتی ہے کر لیتی ہے، ترمیم کرتے وقت اسے بیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات کا احترام بھی بھول جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا تازہ فرمان یہ ہے کہ ’’ختم نبوت کے خلاف سازش ہم نے چوبیس گھنٹے میں ناکام بنائی، حکومت کی بل منظور کرانے کی چوری پکڑی گئی‘‘ میرے پرانے دوست مولانا فضل الرحمٰن کس کو دھوکہ دے رہے ہیں، وہ تو خود حکومت کا حصہ ہیں، ان کی پارٹی کے کئی افراد وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور وہ خود کشمیر کمیٹی کے ’’لازوال‘‘ چیئرمین ہیں، ان کی یہ چیئرمینی ہر موسم میں قائم رہتی ہے۔
جھل مگسی میں دھماکے نے دہشت گردی کو پھر یاد کروا دیا، دہشت گردوں کو جب بھی دیکھتا ہوں تو مجھے سرور ارمان کا یہ شعر بہت یاد آتا ہے کہ؎
مقتل کھلے ہوئے ہیں مقفل خدا کا گھر
مذہب شکم پرست انائوں کی زد میں ہے
اب نیب کے نئے چیئرمین کا اعلان اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کر دیا ہے، جس دن پیپلز پارٹی کی طرف سے تین نام پیش کئے گئے تھے تو مجھے خود حیرت ہوئی کہ دو نام تو کہیں اور سے آئے لگتے ہیں، کیا چالاکی ہے، اس پر سوچ ہی رہا تھا کہ میرے پیارے دوست بودی شاہ تشریف لے آئے ہیں، میں نے چالاکیوں کے یہ لامتناہی سلسلے بودی شاہ کے سامنے رکھے تو بودی شاہ بولاتمہیں کچھ پتا نہیں، تمہیں میں بتاتا ہوں کہ اصل بات کیا ہے، دونوں جماعتوں کا آپس میں مک مکا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنی مرضی کا چیئرمین نیب لے آئے ہیں، اصل میں تو یہ میاں نواز شریف کی مرضی کا چیئرمین ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جاوید اقبال میں بہت سی باتوں میں مماثلت ہے۔ مثلاً دونوں پنجابی بولنے والے ہیں مگر دونوں کا تعلق کوئٹہ بلوچستان سے ہے، دونوں کے والد پولیس میں تھے، دونوں نے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا تھا پھر انکاری بھی ہوئے تھے، ایک بنیادی طور پر فیصل آبادی ہے تو دوسرے کا تعلق بھیرہ شریف سے ہے، یعنی جسٹس جاوید اقبال کے والد بھیرہ سے کوئٹہ گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے جو تین نام پیش کئے گئے تھے ان میں سے دو نام تو دراصل ن لیگ ہی کی طر ف سے تھے۔دو تین ملاقاتیں تو محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کی گئیں، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر بس ایسے ہی ملے آپ کو یاد ہو گاکہ ایک اہم کاروباری شخصیت نے نا اہل وزیراعظم سے جاتی امراء میں طویل ملاقات کی تھی، وہ کاروباری شخصیت آصف علی زرداری کی بھی بہت گہری دوست ہے، اس شخصیت نے پل کا کردار ادا کیا اور پھر چیئرمین نیب فائنل ہو گیا، باقی سب نظر کا دھوکہ ہے۔ اب ذرا احتساب کورٹ میں پیشیوں کی بات کر لیں، ملزمان ایک ایک کر کے اس لئے پیش ہو رہے ہیںتاکہ تاخیر ہو جائے، تاخیر اس لئے ضروری ہے کہ دونوں جماعتیں نیب کے قوانین میں ترمیم کرنے جا رہی ہیں ترمیم کے بعد بہت کچھ بدل جائے گا، نااہلیت کی مسافت کو اہلیت کے موڑ پر لانے کی کوششیں جاری ہیں، اس میں مزید رنگ بھرا جائے گا، وہ جو پندرہ سو درہم لینے والا درویش ہے، اس سے اس کی زمینوں کا حساب بھی پوچھا جائے گا، وہ جو سابق نا اہل وزیراعظم کی بیٹی کہتی ہیں کہ میرے بھائیوں پر اس ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا، کوئی اس سے پوچھے کہ اس ملک کی دولت ان پر لاگو ہوتی ہے۔
بودی شاہ نے ایک لمحے کا توقف کیا تو میں نے پوچھا کہ شاہ جی پھر یہ احتساب کی سب باتیں ختم ہو جائیں گی، کچھ نہیں ہو گا؟ ویسے مریم نواز نے پنجاب ہائوس میں قیام نہ کر کے اچھا کام کیا ہے، ہمیں سرکاری عمارتوں کو اپنے پرائیویٹ کھاتوں کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
میری بات سن کر بودی شاہ بولا ہاں یہ تمہاری بات ٹھیک ہے کہ مریم نواز نے چوہدری منیر ہدایت اللہ کے گھر قیام کر کے اچھا اقدام کیا ہے۔ چوہدری منیر ہدایت اللہ کی امارات کے شاہی خاندان سے عزیز داری ہے، ان کے والد فیروز پور سے رحیم یار خان آئے تھے۔ جہاں تک احتساب کی بات ہے تو اس سلسلے میں صرف اتنا کہوں گا کہ چیئرمین نیب جس کی مرضی کا بن جائے، احتساب بہت سخت ہونے والا ہے، جو لوگ اس وقت سیاست میں ہیں ان میں سے 80فیصد اگلے الیکشن میں نظر نہیں آئیں گے، ایسا احتساب کبھی ہوا نہیں، بس یہی سمجھو کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، بہت کچھ ہونے والا ہے اور بہت جلد ہونے والا ہے، جو ہے وہ نظر نہیں آئے گا اور جو نظر آئے گا وہ لوگوں نے پہلے دیکھا نہیں، تھوڑا سا انتظار، بس تھوڑا سا انتظار‘‘ حسن عباس رضا کا شعر برمحل ہے کہ؎
فون کرتا تھا تواتر سے مجھے، پر اُس کے بعد
وہ شمارِ درہم و دینار سے نکلا نہیں

تازہ ترین