• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پھر مجھے سونے کا کھنکتا ہوا سکّہ ملا۔ آج پھر ایک بچّہ مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ وہ ایک ذرا سا تبسّم، وہ ہونٹوں پر دھنک جیسے دھیمے سے رنگ، وہ چہرے پر ابھی ابھی کھلا ہوا گلاب، وہ ذرا سی شبنم میں تر لب، وہ کہنے کو ہونٹوں سے لیکن سارے وجود سے چھلکتی شوخی، انسان اس پر قربان نہ جائے تو کیا کرے۔
میں بالکل بھولا ہوا تھا کہ ہر سال اکتوبر کے پہلے جمعے کو مسکراہٹ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ میری فیس بک کی فرینڈ کلثوم آفتاب احمد خاں نے کراچی سے اپنی ننھی سی بھانجی لینا کی تازہ تصویر بھیجی۔ وہ جب سے پیدا ہوئی ہے، اس کی تصویریں باقاعدگی سے آتی رہتی ہیں، پر اس با ر جو شبیہ آئی وہ سب سے جدا تھی۔ اس مرتبہ لینا مسکرارہی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ بھی عیدکارڈ اور سال نو کی طرح یوم تبسّم کا کارڈ ہے۔ یاد آیا تو خوشی کے ساتھ کوفت بھی ہوئی کہ دو تین روز پہلے یاد آجاتا تو اپنی جمعے کی تحریر میں مسکراہٹ میں چھپے طلسم پر کچھ لکھتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرا بس چلے تو زندگی کے ہر دن کو یوم تبسّم میں بدل دوں۔مگر کیا اخبار، کیا ٹیلی وژن، کیا سوشل میڈیا اور کیا دوستوں کی محفل میں چھڑے ہوئے موضوعات، سبھی اندر کسی جذبے،کسی احساس کو مارے ڈالتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگے ہے کہ دنیا میں کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں انسان کہاں سے مسکرائے اور کیونکر تبسّم کرے۔ مگر پھر سوچتا ہوں کہ جینے کے لئے جس طرح ہوا، پانی، خوراک اوراند ر کہیں موجود جینے کی آرزو ضروری ہے، اسی طرح ،بالکل اسی طرح وہ چھوٹی سی مسکراہٹ اور وہ ذرا سا تبسم بھی ہے جو اس سارے نظام کو آتی جاتی سانسوں کی طرح چلائے ہوئے ہے۔ ایک بار میں نے کسی کو خط لکھا۔ جواب آیا کہ آپ کچھ برہم سے لگتے ہیں۔ میں نے لکھا کہ اسی خط کو تھوڑا سا مسکرا کر پڑھو۔ جواب آیا کہ اب پتہ چلا کہ مسکراہٹ میں بھی جادوکا اثر ہے۔ وہ مسکراہٹ جو دلوں کو جیت لے اور روحوں میں اتر جائے اس کی بس ایک شرط ہے۔ وہ حقیقی ہو، وہ اندر سے نکل رہی ہو ، وہ ہونٹوں تک محدود نہ ہو، لب مسکرائیں تو یوں لگے کہ پورا وجود مسکرا رہا ہے۔ ابھی چند روز ہوئے ٹیلی وژن پر دنیا کو پریشان کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھا۔ اپنی قیام گاہ کے سبزہ زار میں کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ پھر ایک عجیب منظر دیکھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتی اور لمحہ بھر ٹھہر کر غائب ہو جاتی۔ پھر اچانک وہ مسکراتے او راگلے ہی لمحے سنجیدہ ہو جاتے۔ بالکل یوں جیسے بجلی کا سوئچ آن کیا جائے اور فوراً ہی آف کردیا جائے۔ یہ منظر بار بار دہرایا گیا تو اچانک خیال آیا کہ ہو نہ ہو، وہاں موجود فوٹو گرافر تصویریں اتار رہا ہے۔ وہ جو ں ہی کیمرے کا رخ صدر کی جانب کرتا ہے، وہ اپنے چہر ے پر مسکراہٹ طاری کر لیتے ہیں۔ اس طرح یہ دکھاوے کی مسکراہٹ جلتی بجھتی اور ٹمٹماتی روشنی کا منظر پیش کررہی ہے۔ خود صدر کا کھٹکا کب آف ہوگا، اسے منتخب کرنے والوں تک کو انتظار ہے۔
یہ بات کافی پرانی ہے مگر دلچسپ ہے۔ گلوکارہ نورجہاں راولپنڈی پریس کلب کی مہمان تھیں اور شہر کے صحافی اور ان کے بال بچّے نورجہاں کو دیکھنے جمع تھے۔ ایک بار والدین اپنے بچّوں کو میڈم کے قریب لے گئے اور فوٹوگرافر ان کی تصویریں بنانے لگے۔ نورجہاں جتنی اچھی گلوکارہ تھیں اتنی ہی عمدہ ادا کارہ بھی تھیں۔ یوں تو وہ سنجیدہ بیٹھی تھیں لیکن جو ں ہی ان کی تصویراترنے لگتی، چہرے پر ایسی مسکراہٹ طاری کرتیں کہ ہر بار اصل کا گماں ہوتا۔لیکن بس ذرا دیر کے لئے۔ آج جن گھروں میں وہ تصویریں محفوظ ہوں گی ان گھروں والے یہ دیکھ کر سرشار ہوتے ہوں گے کہ اس روز میڈم کتنی مسرور تھیں۔
لیکن جس اگلی مسکراہٹ کا ذکر کررہا ہوں وہ بھی ایک عظیم گلوکار کے ہونٹوں پر دیکھی گئی تھی۔محمد رفیع نے جولائی سنہ اسّی میں انتقال کیا تھا اور تکلیف دہ حالات میں ان کی رحلت ہوئی تھی۔ ان پر دل کا دورہ پڑرہا تھا اور انہیں ہنگامی طور پر بمبئی کے جس اسپتال میں لے جایا گیا اس کی عمارت میں لفٹ نہیں تھی ۔ وہ اسی حالت میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے تو پتہ چلا کہ اس اسپتال میں دل کے علاج کی سہولت نہیں ہے۔ پھر انہیں دوسرے اسپتال لے جایا گیا۔ وہ دنیا سے بے نیاز درویش صفت شخص اسی دوڑ دھوپ میں چل بسا۔ تدفین سے پہلے چہرے سے کفن سرکا کر جب رفیع صاحب کا آخری دیدار کرایا گیا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔ اس کیفیت کی تصویر دنیا بھر میں پھیل گئی اور آج تک کبھی کبھی ان کی تدفین کی فلم میں ان کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آتا ہے۔ رفیع صاحب آخر عمر میں ، خصوصاً حج کے بعد موسیقی سے گریز کرنے لگے تھے۔ ان کی اُس مسکراہٹ میں دنیا داری سے بے نیازی چھلک رہی تھی۔ لیکن جس مسکراہٹ کی ایک عالم میں دھوم ہے وہ مصوری کا وہ شاہکار ہے جسے دنیا مونا لیزا کے نام سے جانتی ہے۔ عظیم اطالوی مصور لیونارڈو ڈا ونچی نے ایک خاتون کی یہ تصویر سنہ پندرہ سو دس کے لگ بھگ بنائی تھی۔ اس کی جس ادا پر دنیا فدا ہے وہ خاتون کے چہرے پر ہلکی سی جھلک دکھانے والی وہ مسکراہٹ ہے جو بس یوں ہے کہ گویا ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔
آخر میں ایک پرانا واقعہ سن لیجئے۔ لندن کی مرکزی مسجد میں مشائخ کانفرنس ہو رہی تھی۔ بڑے بڑے جیّد علما اور دانش ور شریک تھے اور تقریریں جاری تھیں۔ اتفاق سے یوسف اسلام، جو کبھی کیٹ اسٹیونز کے نام سے پاپ سنگر تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی ترویج کے لئے بڑے کام کرتے رہے، مسجد میں نماز پڑھ کر واپس جا رہے تھے۔ مشائخ کانفرنس کے منتظمین ان کو پکڑ لائے اور کہا کہ اجتماع سے خطاب کیجئے۔ ان کے ہاتھ میں بستہ تھا جو انہوں نے میز پر رکھا اور چھوٹی سی تقریر کی ۔ انہوں نے اور باتوں کے علاوہ مشائخ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میری آپ سب سے بس یہی گزارش ہے کہ روزمرہ زندگی میں ذرا سا مسکراتے رہا کیجئے۔ یہ کہا، اپنا بستہ اٹھایا اور ہال سے چلے گئے۔ اس وقت صرف ایک شخص مسکرا رہا تھا۔میں۔

تازہ ترین