• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آج پاکستان کی جاری بحرانی کیفیت سابقہ کتنے ہی بحرانوں کی طرح فقط بحران نہیں جو ختم ہو کر نئے بحران پیدا کرکے ختم ہو۔ موجودہ پاکستان بڑے بڑے مثبت نتائج کی حامل تبدیلی کے ایک انتہائی پیچیدہ عمل سے گزر رہا ہے جو ماضی کی طرح بحران در بحران کا حصہ نہیں رہے گا، بلکہ تاریخ میں تابناک پاکستان کے پس منظر کے طور پر ریکارڈ ہوگا۔
ملک کو حقیقی جمہوریت سے ہمکنار کرنے کے لئے ہماری روایتی پاپولر اور ایک نئی قومی سیاسی جماعت کو ایک بڑا اور سنہری موقع ملا کہ وہ’’آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کو ممکن بنا کر پاکستان کو حقیقی اور مطلوب جمہوریت سے ہمکنار کردیں۔ وائے بدنصیبی ایسا نہ ہوا، جو ہوا اور اب ہورہا ہے، وہ اس کے یکسر برعکس ہے، لیکن صبح نور کے امکانات پہلے کسی بحران کے خاتمے کے بعد سے آج کہیں زیادہ اور یقین پختہ ہے۔ یہ کوئی خواہشات یا خالی خولی خلوص کے تابع نہیں بلکہ حالات اور صورتحال کا ہے، ایسی سازگار جس میں ہماری سیاسی تاریخ کا بڑا غالب کردار اسٹیبلشمنٹ اقتدار کی خواہش ا ور دائرے سے ہمیشہ کے لئے دور ہوگئی، اگرچہ روایتی سیاسی حکمرانوں نے وکلاء تحریک کے نتیجے میں بحالی اور اصلی جمہوریت کے ایک اور بڑے موقع پر اس کی سوئی خواہش کو جگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اب یہ ممکن ہی نہیں رہا، چونکہ وکلاء تحریک کی روح رواںخود وکلاء اور سول سوسائٹی تھی اور ’’جلاوطن‘‘ روایتی سیاسی خاندانوں کو اپنے اقتدار کی راہ نکالنے اور واپس وطن لوٹنے کے لئے اس کی تائید کرنی ہی پڑی۔ اس لئے عدلیہ کے آزادی اور غیر جانبداری کی طرف آگے بڑھنے اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے میں اسے ان روایتی جماعتوں پر انحصار نہیں کرنا پڑا۔ یہ راہ خود وکلاء کمیونٹی اور باشعور سوسائٹی نے ان سیاسی خاندانوں کی وطن واپسی سے پہلے ہموار کردی تھی۔ پاکستان میں پہلے کبھی ایسے نہ ہوا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی تحریک کے بغیر آمریت یا ماوراء آئین نیم جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا ہو، اس لئے وکلاء تحریک کے نتائج پائیدار ثابت ہوئے۔ڈوگر کورٹس کو برقرار رکھنے کے لئے پی پی کی نئی منتخب حکومت کی ابتدائی مزاحمت کام آئی نہ فقط انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے والا۔ ن لیگ کے بحالی ججز کے لئے مارچ نے ماضی کی طرح عدلیہ کو حکومت کے تابع کیا۔ ہر دو جماعتوں کا آخری سیاسی رنگ قوم نے دیکھ لیا۔ مخصوص خاندان کے مکمل تابع ان جماعتوں کی حکومتوں میں آئین و قانون کی حکومت، پارلیمان کی اہلیت اور بالادستی، عوام دوست قانون سازی، غیر جانبدار، آزاد اور منصفانہ انتخابات، شفاف حکومت کی معمولی سی توقع اور اس کا کوئی بھی جواز پیش کرکے اظہار سراسر خود اور قوم کو دھوکہ ہے۔ خود کو ایسا دھوکہ تو خود غرضی پر مبنی ہوسکتا ہے، قوم کو ایسا دھوکہ دینا اب ایک بڑا قومی جرم ہے۔
اس آزمودہ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی کی تبدیلی کی صلاحیت محدود ہے۔ بلاشبہ کرپٹ حکومتوں کی مانیٹرنگ اس پر چیک اور اس کی پوری شدت سے نشاندہی پھر اس کے مثبت نتائج میں عمران خان کی سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور یہ جاری تبدیلی کے عمل میں ایک بڑے فیصد کا سبب بنا، لیکن مطلوب گورننس اس کی خامیاں اب بہت واضح ہیں جو پی پی اور ن لیگ سے کم نہیں۔ حال ہی میں قانون سازی کے عمل میں ہونے والی انتہا درجے کے غیر ذمہ دارانہ اور نااہلی نے ثابت کردیا ہے کہ جو جواہر پی ٹی آئی نے عوامی نمائندگی کے لئے منتخب ایوان میں بھیجے ، وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں اور عوامی توقعات پر پورے نہیں اترے، وگرنہ پاکستان کی سینکڑوںارب ڈالر کو لوٹ کر بیرون ملک ٹھکانے لگائی گئی سرکاری خزانے کی بھاری بھر رقم واپس لانے،انتخابی عمل کوبمطابق آئین بنانے، ٹیکس چور مگرمچھوں کو ٹیکس میں لانے اور پاناما کے بغیر بھی کرپٹ حکمرانوں پر پھندا ڈالنے کے لئے 30منتخب اراکین اسمبلی بہت اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ یہ نہیں کہ تمام کاوشوں کے نتائج نکل آتے ، لیکن بنیادی کام مکمل ہو کر پیش رفت کے واضح امکانات تھے۔ کوئی ایسامسودہ قانون ہے جو عوام دوست ہوتا اور نظام بد کی بیخ کنی کی جانب اسے اہم قدم سمجھا جاتا، پی ٹی آئی نے تیار کرکے عوام میں تشہیر کی ہو۔ اس کی تائید حاصل کی ہو اور جو اکثریت کے زور پر مسترد ہوکر حکومت کامنہ کالا ہوتا؟ نہیں بالکل نہیں۔ پی ٹی آئی اور دوسری جماعتیں بھی، اس ضمن میں1972-77کی قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے مقابل ننھی لیکن باکمال اپوزیشن کا مطالعہ کریں۔ پارلیمانی اپوزیشن جماعت کا بھی اور ان کے حکومت مخالف باہمی تعاون کا بھی تو شاید آنکھیں کھل جاتیں کہ اکثریتی جماعت کے سامنے اتنی بےبس نہیں ہوتی جتنی اس دور میں نظر آئی اور وہ بھی ن لیگی اکثریت جو متنازع ترین اور اسکینڈلز میں لتھڑی پڑی ہے۔
اس سارے پس منظر میں ہر تین جماعتوں اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کے اہل دانش کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس نکتے پر غور کریں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار میں آنے کے امکانات ختم ہونے کی طرح اس پر غور کریں کہ کیا خاندانی سیاست کا ملکی سیاست میں کردار ختم ہوا چاہتا ہے؟ جی ہاں یقیناً۔ یہ ختم ہی نہیں ہوگا ، اگر اسے اب مسلط کرنے کی پھر کوشش کی گئی اور سیاست کا محور یہ ہی رہا تو یہ سامان عبرت بن جائے گا۔
سو، تمام جماعتیں، جماعتوں کے آئین میں گنجائش پیدا کریں اور اس پر عملدرآمد سے پارٹی کے اندر متحد ہوں۔ پارٹی قیادت اور مجالس عاملہ ایگزیکٹو کمیٹی میں اختیارات کے توازن کو عملاً قائم اور قابل دید بنائیں۔ اب نہ فرد و احد کے غلبے سے پارٹیاں چلیں گی نہ خاندانوں کے دبدبے اور عقیدت سے ۔ کوئی جماعت ایسی نہیں جس میں اہل دانش اور بلند درجے کے سیاسی شعور کے حامل ہائی پوٹینشل ارکان موجود نہ ہوں اور باہر بھی،لائیک مائنڈڈ ، ’’سیاست کے گند‘‘ سے بچنے والے انہیں پارٹیوں میں آگے لائیں، اندر داخل کریں۔۔آپس میں اتحاد کریں، پارٹی آئین کا تقدس اور تقدم قائم کریں۔ قیادت کا احترام لازم لیکن پارٹی کلچر میں جمہوری کلچر اس سے بڑھ کر ضروری ، یہ پارٹی آئین کی تابعداری سے ہی ممکن ہے۔ میڈیا بھی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے آئین اور اس پر عملدرآمد کی کیفیت کو خبر سازی کا موضوع بنائے اور پارٹیوں کا پوٹینشل اپنی اپنی پارٹیوں کو مستحکم، منظم اور عوام دوست بنانے کے لئے برین اسٹارمنگ کریں۔ صلاحیتوں کی واضح نشاندہی اور اس کے مطابق پارٹی میں کردار کی ادائیگی کا میکنزم تیار کرکے اسے پارٹی آئین میں شامل کریں۔ یہ کچھ نہیں ہوگا تو یہ ناسمجھیں اب روایتی طرز کی پارٹیاں چلیں گی۔ اب کوئی نجات دہندہ نہیں آئے گا۔ عوام، عدالتیں اور میڈیا مل کر وہ سب کچھ کریں گے جو مطلوب ہے کہ ہر حال میں پاکستان نے تابناک بننا ہے۔

تازہ ترین