• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات گئے کمرے میں پھیلنے والی تیز خوشبو سے میری آنکھ کھل گئی، میں اس خوشبو سے اتنا مانوس تھا کہ بے چین ہوکر اٹھ بیٹھا، یہ میری ماں کی خوشبو تھی جسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا تھا مجھے معلوم تھا کہ زندگی کے ہر دکھ درد میں اگر کوئی میرے ساتھ ہوگا تو میری ماں ہی ہوگی اور آج مجھے ماں کی بہت کمی محسوس ہورہی تھی، لیکن جیسے ہی میں نے بیٹھنے کی کوشش کی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرا ہاتھ کسی چیز سے بندھا ہوا ہے مزید کوشش کی تو ایک تکلیف کا احساس پورے جسم میں ہوا جس سے اندھیرے میں ہی کمرے میں نظریں دوڑانے کی کوشش کی تو گھپ اندھیرے کے سواکچھ دکھائی نہیں دیا، لیکن جیسے جیسے میرے اوسان بحال ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ میرا کمرہ نہیں ہے اور میں اس وقت اپنے گھر میں نہیں بلکہ اسپتال میں موجود ہوں، جہاں میں ایمرجنسی میں لایا گیا تھا ،آہستہ آہستہ مجھے سب کچھ یاد آنے لگا، مجھے ہائی بلڈ پریشر کی شکایت پر اسپتال لایا گیا تھا اور پردیس میں اپنوں سے بہت دور غیروں کے رحم وکرم پر تھا، ایک روز قبل ہی مجھے پتہ چلا تھا کہ شدید بلڈپریشر اور اسٹریس کے نتیجے میں مجھے دل کے دورے یا فالج کا خطرہ ہے لہٰذا فوری طبی امداد اور مکمل علاج کے لئے اسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے لہٰذا میں جو نارمل چیک اپ کے لئے گھر سے نکلا تھا رات گئے اسپتال منتقل کردیا گیا، میں اس وقت کمرے میں اکیلا ہونے کے باوجود خود کو بالکل اکیلا محسوس نہیں کررہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میری ماں جاپان جیسے ملک کے دور دراز علاقے کے اس جدید اسپتال میں میرے ساتھ موجود ہے اور میری تیمارداری میں مصروف ہے، کمرے کے سامنے والی دیوار پر لگی گھڑی رات کے تین بجارہی تھی میں نے ایک بار پھر آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کی توبچپن کا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے تھا، بھائی اور بہن کے ساتھ کھیل کود، پڑھائی کے لئے والد کی سختی تو والدہ کا پیار سب کچھ ایک فلم کی طرح سامنے سے گزر رہا تھا، پھر اچانک ہی مجھے اپنی بیماری کے دن بھی یاد آئے، پانچ سال کی عمر میں شدید بخار میں مبتلا تھا والد اپنے کارخانے اور پھر کریانے کی دکان میں اتنے مصروف تھے کہ صبح نکلتے تو رات گئے ہی لوٹتے، پڑوس میں بھی کسی کے پاس سواری نہیں تھی اور نہ ہی رکشہ ٹیکسی کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا، لیکن ماں سے میری یہ تکلیف برداشت نہ ہوسکی اس نے مجھے اپنی گود میں لیا اور گھر سے آٹھ کلومیٹر دور اسپتال کے لئے پیدل ہی نکل پڑی، میرا گرم جسم ماں کے کندھوں پر تھا اور وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ اسپتال کی جانب رواں دواں تھی، شدید گرمی کا دن تھا اور کافی دور تک پیدل چلنے سے ماں کے کندھوں پر بہنے والا پسینہ میرے چہرے کو گیلا کیے دے رہا تھا جس سے میرے بخار سے تپتے ہوئے چہرے کو بہت سکون مل رہا تھا کم سے کم دو کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد ایک بس نظر آئی جس نے ہمیں اسپتال کے نزدیک اتار دیا، جہاں سے ایک بار پھر ماں کی گود میں جلتی دھوپ میں اسپتال کے لئے ایک کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑا، اسی حالت میں ہم اسپتال پہنچ چکے تھے، فوری طور پر ایمرجنسی میں ڈاکٹر کو دکھایا گیا، ڈاکٹر نے بخار چیک کیا اور مسکرا کر ماں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ کے بیٹے کا بخار اتر چکا ہے لیکن آپ کے چہرے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ کو بخار ہے اور پھر ایسا ہی ہوا مسلسل ماں کے پسینے سے چہرہ تر ہونے سے شاید میرا بخار اتر چکا تھا اور شدید لو اور گرمی میں کئی کلومیٹر پیدل چلنے سے ماں کو بخار ہوگیاتھا، لیکن پھر بھی ماں خوش تھی کہ میرے بیٹے کی طبیعت ٹھیک ہوگئی ہے اتنی دیر میں والد صاحب بھی اپنی موٹر سائیکل پر اسپتال پہنچ گئے اور ہم گھر کے لئے روانہ ہوئے، یہ واقعہ میرے بڑے ہونے تک والدہ سنایا کرتی تھیں اور ہمیشہ ہی مجھے یہ واقعہ ایک معجزے سے کم نہیں لگتا تھا، اس واقعہ کو یاد کرکے میں کئی دفعہ آنسو بہا چکا تھا لیکن نہ جانے آج ماں کی یاد کچھ زیادہ ہی آرہی تھی، وقت اسی طرح گزرتا رہا والد صاحب کی صحت اور گھریلو حالات کی مجبوری کی بنا پر آٹھویں جماعت میں تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا، اب والد صاحب کے ساتھ ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا، لیکن گائوں کی زندگی کی بھی اپنی بات ہوتی ہے رشتہ دار شہروں میں منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے، شہروں میں جاکر ترقی کرنا شروع کردی تھی، جس سے گائوں میں ان کے گھروں میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی تھیں جس کے بعد ان کے روئیے میں بھی تکبر آنے لگا ہمیشہ ہی ہمیں اپنی دولت کے بل پر نیچا دکھانے کی کوشش کیا کرتے، ماں ہمیشہ ہی انھیں نظر انداز کرنے کا کہتی لیکن رگوں میں بہنے والا خون بھی عجیب تھا کبھی جھکنے اور بکنے کو تیار نہ ہوتا، یہی سوچ ملک سے باہر لے آئی اور پھر زندگی تبدیل ہوگئی، والدین کی ہر خواہش کو پورا کیا لیکن زندگی اگر پیسوں سے خریدی جاسکتی تو پوری دولت دیکر بھی والدین کی زندگی خرید لیتا لیکن انسان بے بس ہوتا ہے ماں بھی چلی گئی اور باپ بھی، اب پردیس میں اہلیہ اور دو بیٹیاں ہی زندگی کاسہارا تھیں، لیکن ماں ہمیشہ ہی یاد وں میں زندہ رہتی ہے، انہی سوچوں میں صبح ہوگئی، ڈاکٹر اور نرسوں کا آنا جانا شروع ہوچکاتھا، جن دوستوں کو بیماری کا پتہ چلا وہ بھی آرہے تھے میں بھی اپنے اس دوست سے ملنے گیا، میرے سامنے اسپتال کے بیڈ پر لیٹا میرا دوست عابد اپنی زندگی کی کہانی سے مجھے روشناس کرارہا تھا جو میرے دل کو چھو رہی تھی، وہ صرف پینتالیس برس کی عمر میں اس دنیا کو پوری طرح پرکھ چکا تھا، اپنوں کی اپنائیت بھی دیکھ چکا تھا اور غیروں کو پرکھنے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکا تھا، غرض زندگی میں ہر دور دیکھ چکا تھا، لیکن اسپتال کے اس سویٹ روم میں ایک کمی جو مجھے محسوس ہورہی تھی وہ اس کی اہلیہ اور بیٹیوں کی تھی، اس سے پوچھا تو اس کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوگئیں اس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر میں کسی تکلیف دہ جواب سننے کے لئے خود کو تیار کررہا تھا اس نے ایک بار پھر سر اٹھا کرمجھے دیکھا اور بولا کہ اسپتال آنے کے بعد ڈاکٹرز نے مجھے اپنے گھروالوں کو اطلاع دینے کے لئے کہا میں نے بیگم کو فون کیا اور اپنی بیماری اور اسپتال میں داخلے کے حوالے سے بتایا تو بیگم کے جواب نے مزید ڈپریشن میں مبتلا کردیا میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا کہ بیگم نے کیا کہا تھا تو اس نے جواب دیا کہ اپنی دولت اور جائیداد میرے اور بچیوں کے نام کرنے سے پہلے مر نہیں جانا، یہ کہہ میرے دوست نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور میں بھی اسے مزید شرمندہ کیے بغیر واپس چلا آیا۔

تازہ ترین