• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں نسلی عدم مساوات خیال تازہ … شہزادعلی

برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی حکومت نے ایک مستحسن اقدام اٹھایا ہے کہ برطانیہ کے نسلی عدم مساوات کو ڈسپلے کر دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ ریشل ان ایکوالٹی میں اضافہ خود اسی جماعت کے تاریخی طور پر نسلی امتیاز کے رویوں پر مبنی طرزعمل سے ہوا ہے تاہم پھر بھی یہ بات خوش آئند ہے کہ ایک بڑی جماعت جو کہ اس وقت بھی برسراقتدار ہے کو اعلیٰ سطح پر بتدریج یہ رنگ دار نسل کے لوگوں کی احساس محرومیوں اور ان کے ساتھ ناانصافی پر مبنی پالیسیوں کا ادراک ہوتا جا رہا ہے ۔رائیٹرز کے مطابق برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریسا مئی کی میزبانی میں کابینہ کے ساتھ ریس ڈسپریریٹی یونٹ کی فائنڈنگز پر بحث کی گئی ہے ۔ خیال رہے کہ یہ وہی رپورٹ ہے جس میں برطانیہ کی پاکستان نژاد خواتین کے ایک الگ تھلگ سوسائٹی میں رہنےکا انکشاف کیا گیا تھا اور جسے گزشتہ کالم میں زیربحث لایا گیا تھا اب اس ریس ڈیسپیریٹی آڈٹ کی مزید تفصیلات جو سامنے آئی ہیں اور جنہیں حکومت نے کیبنٹ میں ڈسکس کیا ہے جب کہ گزشتہ ہفتے حکومت نے اس مقصد کے لیے مخصوص ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی ہے تاکہ ملک بھر سے نسلی عدم مساوات کے متعلق اعداد و شمار کو جمع اور ٹریک کیا جاسکے۔ برطانیہ میں ڈسکریمنیش اور ریس، نسل کے ارد گرد ناانصافیوں کے واقعات کا ایک طویل پس منظر ہے جب کہ اب بھی رائٹرز کے مطابق یہ موضوع پبلک ڈبیٹ میں اس طرح کی جگہ نہیں پاسکا۔جس باعث نئی سائٹ ڈیزائن کی گئی ہے تاکہ پبلک اور پرائیویٹ اداروں کو اس متعلق بحث مباحثہ پر زور دیا جاسکے۔یہ ہہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جو ڈیٹا پیش کیا گیا ہے اسے ایک ہی جگہ پر اکٹھا کر دیا گیا ہے اور واضح طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔ڈسپیریٹی آڈٹ کی جس میں برطانیہ کی جو دلچسپ پکچر ابھرتی ہے وہ بلیک اینڈ وائٹ کی بحث سے بھی اوپر ہے کہ بعض صورتوں میں ایتھنک منارٹی گروپس وائٹ برٹش پاپولیش کو آوٹ پرفارم کرتی دکھائی دیتی ہیں یعنی بعض اقلیتی گروہ بعض شعبوں اور امور میں میزبان کمیونٹی سے بھی آگے ترقی کی رفتار میں جا رہی ہیں اور دیگر صورتوں میں وہ ان سے بہت پیجھے رہ گئی ہیں اور خود اقلیتوں کے مختلف طبقات اور گروہوں کے مابین مختلف امور پر بہت تفاوت پایا جاتا ہے۔ جنگ کے قارئین گواہ ہیں کہ راقم الحروف ایک طویل مدت سے یہ بات سامنے لانے کی سعی جاری رکھی ہوئی ہے کہ برطانیہ میں کشمیری پاکستانی اور بنگلہ دیشی چاہے وہ تعلیم کا میدان ہے یا ملازمتوں کے مواقع ہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دوسری طرف بھارتی اور چائنیز کئی صورتوں میں سفید فام لوگوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اب انہی باتوں کا حکومتی سطح پر بھی اعتراف کیا جارہا ہے اور یہ جائزہ لیا جارہا ہے کہ ایک ہی ملک میں بسنے والے مختلف رنگ دار لوگوں اور نسلی اقلیتوں کے رہہن سہن بودوباش اور مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار یا پسماندگی میں بہت زیادہ فرق کیوں ہے ۔یہاں یہ بھی قابل غور بات ہے کہ خود ہماری کمیونٹی میں ان حوالوں سے کوئی مکالمہ کیوں نہیں ہو رہا۔بلکہ بعض نام نہاد نمائندے کمیونٹی کی اجتماعی صورتحال پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوششیں بھی اس طور پر کرتے چلے آرے ہیں کہ وہ بھارت یا چینی نژاد باشندوں کی نمایاں کاررکردگی اور شاندار کامیابیوں کو بطور اقلیتی طبقہ کی اچیومنٹس مخصوص طریقے سے پیش کرکے کمیونٹی کے ایک بڑے حصے کو گمراہ کرتے چلے آرہںے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ یا ہم دیگر کمیونٹیز کی کامیابیوں کو سیلبریٹ نہ کریں وہ ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی کا پارٹ اینڈ پارسل ہوتے ہوئے ضرور کیا جائےلیکن ساتھ ہی اپنی کمیونٹی کی یورپ کی سطح پر پسماندگی کو بھی شناخت کیا جائے۔اور برطانیہ بھر میں جو یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ 300کے قریب کشمیری پاکستانی کونسلرز ہیں اتنے لارڈ میئرز اور اتنے زیادہ میئرز ہیں یہ آخر کس مرض کی دوا ہیں، ان نمائندگان کی واضح اکثریت چاہے وہ لوٹن، لندن، برمنگھم، مانچسٹر برڈفورڈ ہو یا کوئی اور ٹاون یا سٹی کمیونٹی کی مختلف پالیسی ساز فورموں میں حقیقی اور ٹھوس نمائندگی میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے ۔ ان نمائندگان کی واضح اکثریت نہ صرف یہ کہ کمیونٹی کی برطانیہ میں اصل زبوں حالی کی صورت حال سے لاعلم ہںےبلکہ کسی سیکٹر سے جب کوئی رپورٹ چاہے وہ ہماری خواتین کی کسمپرسی پر روشنی ڈالتی ہو۔نوجوان کشمیری پاکستانی کمیونٹی کی انتہاپسندی ان کی غیر سماجی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہو یہ ان پر اپنےٹاون ہالز کے چیمبرز میں بحث کرانے کی لیڈ بھی نہیں لے سکتے۔ میں اسی لیے کمیونٹی کے جو سنجیدہ احباب بھی 90فیصد وقت ان مکالموں میں ضائع کر رہے ہوتے ہیں کہ وہاں پر تبدیلی کے لئے عمران خان درست سمت میں لوگوں کو موبلائلز کر رہے ہیں یا میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا ملکی سیاست پر قابض رںںنا ہی ملکی مفاد میں ہے یا کچھ پی پی کی واپسی کو ناگزیر اور بعض ایک ایسے مارشل لاء کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ظلم کا راج ختم کرکے پاکستان کو معاشی طور پر خوشحال کردے۔میری ان سے یہ مودبانہ التجا ہوتی ہے کہ خدارا پاکستان کے حالات آپ وہاں کے عوام اور اداروں پر چھوڑ دیں۔وہ لوگ یقیناً اتنے باشعور ہیں کہ خود ہی اپنے لیے بہترچوائس کا انتخاب کر سکتے ہیں جب کہ آپ کو اور ہم سب کو جو کہ برٹش کشمیری پاکستانی ہیں ہمیں اپنے وقت کا زیادہ حصہ اپنے یہاں کے معاملات پر غور وخوص پر صرف کرنا چاہیے ۔ایک حد تک پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی معاملات سے تعلق رکھا جائے لیکن وہاں پر کوئی بھی تبدیلی یہ جو لوگ ملک کے اندر رہ رہے ہیں انکی صوابدید پر چھوڑ دیں اور برطانیہ کے اندر یہ دیکھا جائے کہ ہماری کشمیری، پاکستانی اور مسلمان کی شناخت کیسے قائم رہ سکتی ہے یہاں پر ہماری کمیونٹی کے مسائل جو روز بروز بڑھتے جارہںے ہیں ان کو زیربحث لانے کے لیے سنجیدہ فورمز تشکیل دیے جائیں خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو طویل ہوگیا بات ہو رہی تھی نسلی برطانیہ کی، 87فیصد آبادی اپنے آپ کو بطور وائٹ کے طور پر شناخت کرتی ہے ۔اور دیگر باشندوں میں بلیک جن میں زیادہ تر کیربین یا افریقن ڈیسنٹ ہیں۔ایشیائیوں میں انڈین، پاکستانی، بنگلہ دیشی اور چائینیز یا مکسڈ ریس شامل ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ لوگ جن کو کسی تعصب کا سامنا ہے ان کو کسی حکومت کے آڈٹ کی ضرورت نہیں جو انہیں درپیش چیلنجز کے سکیل سے باخبر کرسکے۔لیکن اس آڈٹ کا مطلب یہ ہے کہ بطور سوسائٹی ، بحیثیت پبلک سروسز اور حکومتی اعتبار سے کسی کے لیے کوئی چھپنے کی جگہ نہیں۔ مذکورہ سائٹ ڈیٹا بغیر کمنٹری پیش کرتی ہے ۔یہ جرائم، جسٹس ، صحت، تعلیم ، ملازمتوں، آمدن اور آمدن کے بریک ڈاؤن کو مختلف نسلی اقلیتوں کے حوالے سے احاطہ کرتی ہے ۔
اب یہ حقائق ملاحظہ فرمائیں :2013سے لے کر انڈینز کی تنخواہیں تمام اقلیتی گروپوں سے زیادہ چلی آ رہی ہیں اور پاکستانی اور بنگلہ دیشی کمونٹی کی سب سے کم۔وجہ؟ انڈین کمیونٹی کا ایمپلائمنٹ میں تناسب 73فیصد جب کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی برادری کا 54فیصد ہے اور ان کا شمار کم ترین مہارت کی حامل 3کیٹیگری میں ہے جب کہ انڈینز کا شمار ہائی سکلز گروپس میں ہے جن کا ہر 10میں سے ایک ورکر ڈاکٹر، مینجر یا سنئیر آفیشلز رولز میں دیکھا گیا ہے۔یقین کریں کہ مجھے کم از کم اس تفاوت پر کوئی حیرت اس لیے نہیں کہ جس کمیونٹی کی قابل ذکر تعداد اس ترقی یافتہ سپر پاور میں بھی اپنے شب و روز آزاد کشمیر پاکستان سے آئے ہوئے زیادہ تر سسلی کے گاڈ فادر ٹائپ لوگوں کی سنگت میں گزارنے میں عافیت محسوس کرتی ہںو اور یہاں بھی ہٹو بچو کا کلچر فخر سے فروغ دینے میں مصروف دکھائی دیتی ہںو ان کے حالات آخر کیسے بدل سکتے ہیں ۔ اور ان کے بچے آخر کیسے بھارت نژاد یا چاہنا اوریجن کے برابر تعلیم کے شعبہ میں نتائج دکھا سکتےہیں۔ اس لیے اس عدم مساوات کے جہاں کئی اور مقامی عوامل کارفرما ہیں وہاں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے زیادہ ذمہ دار ہم خود بھی ہیں ۔

تازہ ترین