• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نااہل شخص کی سربراہی، اخلاقاً بُرا، آئین اجازت دے تو عدلیہ کیا کرے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اخلاقی طور برا لگتا ہے کہ نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بنے لیکن برا یا عجیب لگنے کی بنیاد پر قانون کالعدم نہیں کئے جاتے.عدالتیں اخلاقی طور پر نہیں، آئین اور قانون کے تحت فیصلوں کی پابند ہیں. آئین اجازت دے تو عدلیہ کیا کرے،آئین کے تحت کوئی بھی شخص سیاسی جماعت بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس انتخابی اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران دیئے. چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل دینے کی ہدایت کی. عوامی تحریک کے رہنما اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی جس میں انتخابی اصلاحات بل 2017 کو چیلنج کیا گیا ہے. درخواست گزار وکیل نے نشاندہی کی کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ ایک نااہل شخص کو بچانے کیلئے لایا گیا، اخلاقی طور پر کسی نااہل کو سیاسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بنایا جا سکتا، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آئین سیاسی جماعت بنانے پر قدغن نہیں لگاتا تو پھر عدلیہ کیا کر سکتی ہے، چیف جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ جمہوریت میں ووٹرز نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں. اگر ووٹرز کسی ڈیفالٹر یا نااہل کو منتخب کرتی ہے تو ووٹرز کی رائے مقدم ہے، درخواستگزار وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ آئین کے تحت کرپٹ افراد کو روکنے کیلئے ایک فلٹر دیا گیا ہے جس پر چیف نے واضح کیا کہ یہ فلٹر لگانا پارلیمنٹ کا کام ہے، عدالتیں فلٹریشن کا کام نہیں کرتیں، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ہدایت کی درخواستگزار دیگر ممالک کے قانون سازی پر بھی ریسرچ کریں. درخواست پر کارروائی 14 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
تازہ ترین