• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کرنے کا رواج جاپان میں پایا جاتا ہے اس کے بعد کوریا اور پھر دوسرے ممالک ہیں۔ جاپان میںخودکشیوں کی عجیب و غریب داستانیں رقم ہیں، سب سے زیادہ خودکشیاں ذاتی ناکامی کی وجہ سے کی جاتی تھیں اور آج بھی ہوتی رہتی ہیں ۔مثلاً پہلے جاپان میں فلم اسٹار جب بوڑھی ہونے لگتی تھی یا اس پر کسی جونیئر فلم اسٹار کو ترجیح دی جاتی تھی تو وہ دل برداشتہ ہوکر خودکشی کرلیتی تھی۔ اس کو برُا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کو ’’عزت کی موتـ‘‘ سمجھتےتھے ۔بڑے بڑے فلم ساز اوپر تلے اپنی فلموں کے فلاپ ہوجانے کے باعث خودکشی کر لیتے تھے۔بڑے بڑے صنعتکار جب خسارے سے دوچار ہوتے تو موت کو گلے لگا لیتے تھے اسی طرح فوج میں اگر کوئی بڑا عہدیدار کوئی بہت بڑی غلطی کرلیتا تھا تووہ اپنی شرمندگی کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لینابہتر سمجھتا تھا یا پھر کوئی فوجی کسی مشن میں ناکام ہوجاتا تھا تو وہ واپس آنے کے بجائے خودکشی کرلیتا تھا ۔دوسری جنگ عظیم میںجب جاپان نے ہتھیار ڈالے تو سینکڑوں فوجیوں نے ہتھیار ڈالنے پر موت کو ترجیح دی اور خود کو ختم کرلیا کیونکہ جاپانی سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ۔دنیامیںبھوک افلاس سے مرنے والوں کی تعدادکم ہےکیونکہ تمام ترقی یافتہ ممالک مہنگائی اور بیروزگاری الائونس دیتے ہیں ۔اس لئے یورپ ،امریکہ ،آسٹریلیا وغیرہ میں غربت سے مجبور ہوکر کوئی خودکشی نہیں کرتا۔بلکہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ۔ہر عمر کے الگ الگ مسائل ہیں اور لوگ اس کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں ۔مثلاًنوجوان عشق میں ناکامی پر یا بیوی یا محبوبہ کی بے وفائی پر اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پاتے اور جان دینے پرآمادہ ہوجاتے ہیں ۔کسی شخص کے اقدام خودکشی پر پولیس اس کوبچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔اور اگر کوئی بچ جائے تو اس کے خلاف پرچہ درج نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا حل نکالا جاتا ہے ،اس کی اخلاقی اور قانونی مددکی جاتی ہے ۔یورپ اور امریکہ میں انسان کی جان سے بڑھ کر قابل احترام کوئی اور چیز نہیں اور اب تو وہ حیوانوں کو بھی اسی زمرےمیں لاتے ہیں ۔اسی طرح وہاں نوجوانوں کے احساسات سے کوئی کھیلے توہ برداشت نہیں کرتے اور فوراً جذباتی ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں ۔امتحانات میں ناکام طالب علم بھی اپنے ساتھیوں کے سامنے شرمندگی اٹھانے پر خودکشی کو فوقیت دیتا ہے ۔ماں باپ کی طرف سے نظر انداز کئے جانے والے بچے بھی احساس کمتری میں مبتلاہوکر خودکشی کرلیتے ہیں اس کے لئے بھی یورپ میں بڑے سخت قوانین ہیں اور بہت سے ادارے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے گھروں میں جاکر معلوم کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کو نظر انداز ،سختی یا مار پیٹ تو نہیں کرتے ۔یہ بھی قانوناً جرم ہے کیونکہ اس سے بچہ آگے چل کر احساس کمتری کا شکار ہوکر بعض اوقات یا تو خودکشی کرلیتا ہے یاپھر کوئی سنگین جرم کربیٹھتا ہے ۔اس کی زندہ مثال چندسال قبل امریکہ کے ایک اسکول میںپیش آنے والے واقعہ ہے اس طرح کہ کچھ بچے جوپڑھائی میں کمزور تھے اور غلط عادتوں کی وجہ سے دوسرے بچوں میں اچھے نہیں سمجھے جاتے تھے۔ان میں سے چار نے مل کر اسی احساس کمتری کو چھپانے کے لئے اپنے ہی ساتھیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔جس سے کئی بچے ہلاک ہوگئے جبکہ بچوں کو بچانے کی کوشش میں ایک استاد بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا اور جب پولیس نے اسکول کو گھیرے میں لے لیا تو انہوں نے پولیس کے بار بار کے اعلانات پر کوئی توجہ نہیں دی اور گرفتاری دینے کے بجائے خودکشی کرلی ۔
دوسرے نمبر پر خودکشی کرنے والے بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں وہ یا تو کسی مالی نقصان کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں یاپھر لمبی بیماری سے تنگ آکر اپنے آپ کوہلاک کرلیتے ہیں ۔مثلاً ایڈز،سرطان یا بڑھاپا جو اتنا بڑھ جاتا ہے کہ نہ اٹھ بیٹھ سکتے ہیں نہ چل پھر سکتے ہیں محتاج ہوکر رہ جاتے ہیں ۔امریکہ میں تو ایک ڈاکٹر نے ایسے بہت سے مریضوں کو موت کے انجکشن لگا دیئے جنہوں نے اس ڈاکٹر سے موت کی تمنا کی تھی ۔آج کل اس پر مقدمہ چل رہا ہے ۔مذکورہ ڈاکٹر نے اعتراف کیا کہ یہ لوگ اتنے بے بس تھے کہ اگر ان کو موت کا انجکشن نہ لگاتا تو خودکشی کرلیتے یہ لوگ خودسکون سے مرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کی بیماری لاعلاج تھی یا بہت طویل تھی۔ لہذا میں نے ان کے کہنے پر موت کا انجکشن لگادیا ۔اس کے برعکس ہمارے مذہب میں خودکشی حرام ہے اور خودکشی ہی نہیں اسلام میں مایوسی کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے جو درحقیقت خودکشی کی جانب پہلا قدم ہے لہذا مسلمان خودکشی کرنے میں سب سے آخر میں آمادہ ہوتا ہے ۔ہمارے ملک میں تو خودکشی کی وجہ وہ نہیں ہے اوپر جس کا ذکر یورپ ،امریکہ ،جاپان اور کوریا کے حوالے سے کیا گیا ،بلکہ ہمارے ملک میں لوگ بھوک افلاس ،غربت ،بیماری ،پولیس یا حالات کے ستم کے باعث ایسا کرتے ہیں خصوصاً بے روزگاری تو اس میں سرفہرست ہے اکا دُکا لوگ محبت یا امتحان میںناکامی کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں ۔حکومت نے آج تک صرف ٹیکس وصول کرنے پر اپنی توانائی خرچ کی ہے مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ محض ٹیکس وصول کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس رقم کو احسن طریقے سے خرچ کرنا بھی اس کا اولین فرض ہے اسلام نے پیدا ہونے والے بچے کی بیت المال سے پرورش کا ذمہ لیا ۔اگر وہ غریب ہے ڈھائی فیصد زکوۃ امیروں سے وصول کرنے کا بھی طریقہ طے کیا آج ہم ڈھائی فیصد کے علاوہ نجانے کتنے بے حساب ٹیکس اداکرتے ہیں مگر یہ خطیر رقم حکمرانوں کی شاہی اخراجات پر صرف ہوتی ہے۔غریبوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ذرا اندازہ کیجئے کہ زکوۃ گزاراور ٹیکس گزار پر کتنا خرچ ہوتا ہے زکوۃ کے لئے اربوں روپے کی کٹوتی کرنے کے بعد مساکین ،یتیموں اور غریبوں پر فی خاندان صرف 300روپے سے 750روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں ۔کیا ہم نے آج تک کسی بھی بے روزگار نوجوان کو بیروزگاری الائونس دیا کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے یورپ اور امریکہ میں تو پاکستانی اگر بے روزگار ہوں تو وہ ان کی کفالت کرتے ہیں ۔رہائش کے علاوہ بیروزگاری الائونس دیتے ہیں ۔اسلام نے زکوۃ کی رقم پر سب سے پہلا حق غریبوں اور محتاجوں کا تسلیم کیا ۔ہر گھر میں چولہا جلانا اسلامی فلاحی حکومت کا فرض ہے ۔اگر حکومت اپنا فرض پورا کرے تو نوجوانوں میں مایوسی حد درجہ کم ہوجائے ،غربت دم توڑ دے اور خودکشی کے اسباب پیدا نہ ہوں ۔حالیہ دنوں میں خودکشی کے لئے خود سوزی کا بڑھتا ہوا رُجحان جو سامنے آیا ہے وہ نہایت تشویشناک ہے۔اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے تمام طریقوں میں سے زیادہ اذیت ناک جو طریقہ کار ہے وہ خودسوزی کا ہے تو پھر لوگ جان دینے کے لئے یہی طریقہ کیوں استعمال کررہے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ماہرین نفسیات کو توجہ دینی چاہیے ۔مگر حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اس میں ملوث ہیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،باصلاحیت اور ملک و قوم کے لئے اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے کچھ کر ڈالنے کے عزم سے سرشار نوجوان مارے مارے پھرتے ہیں اور ان کو کلرکی بھی نہیں ملتی۔ باربار کی ناکامیاں ان کا دل توڑدیتی ہیں۔ پھر کوئی ڈاکو جنم لیتا ہے،کوئی تخریب کار پیدا ہوتا ہے ،کسی اسمگلر کا اضافہ ہوتا ہے یا پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلینے جیسا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لئے بیروزگاری الائونس کی ادائیگی کا فوراً اہتمام کرے اور نوجوانوں کو پولیس کے تشدد اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنے کے لئےاقدامات اٹھائے۔ یہی وہ سب سے بڑی وجوہ ہیں جو ان نوجوانوں کو خودکشی اور خودسوزی پر مجبور کرتی ہیں۔ کپڑے اور مکان کے بغیر تو انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ مگر روٹی کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ اسی طرح انسان کو اپنی عزت نفس سب سے زیادہ عزیر ہوتی ہے خصوصاً نوجوانوں کو ۔اور بات عزت کی آجائے تو عزت داروں کے لئے عزت کے بدلے موت کا سودا بہت سستا سودا ہوتا ہے۔

تازہ ترین