راولپنڈی (وسیم اختر، سٹاف رپورٹر) پولیس لائن میں موٹر سائیکل چوری کرتے پکڑے گئے کانسٹیبلوں کیخلاف ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے والا سب انسپکٹر معطل کر دیا گیا تاہم ملزموں کیخلاف نہ تو محکمانہ کارروائی ہوئی اور نہ ہی ان کیخلاف درج مقدمہ میں کوئی پیشرفت ہوسکی۔ اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے تفتیشی افسر نے کیس ہی نرم بنایا۔ مدعی کی درخواست کو نظرانداز کر کے ایف آئی آر کا متن بدل ڈالا۔ علاقہ مجسٹریٹ نے دوران سماعت تفتیشی کو ڈانٹ پلا دی جس کے بعد ایس پی انوسٹی گیشن نے تفتیشی سب انسپکٹر نذیر بیگ کو معطل کر دیا۔ گزشتہ ماہ 14تاریخ کی رات جی ڈی برانچ کے ڈی آر آصف علی خان کے زیراستعمال سرکاری موٹرسائیکل نمبر آر آئی جی 09-1178پولیس لائن نمبر ایک راولپنڈی کی پارکنگ سے چوری ہو گئی تھی۔ 2دن بعد ڈی آر نے اپنی ذاتی موٹر سائیکل نمبر اسلام آباد اے آر880 پولیس لائن کی پارکنگ ایریا میں کھڑی کرکے نگرانی شروع کی تو رات سوا ایک بجے ایک شخص پارکنگ ایریا میں داخل ہوا جس نے اردگرد کا جائزہ لے کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اس کا سائیڈ لاک کھولا اور بعدازاں سفید ٹیپ پچھلی نمبر پلیٹ پر لگائی اسی دوران اسکے ایک اور ساتھی نے اپنی جیب سے کوئی چیز نکال کر موٹر سائیکل کے میٹر پر لگا دی اور موٹر سائیکل پارکنگ ایریا سے نکال کر باہر نکلنے لگے تو ڈی آر نے شور مچا دیا۔ ڈیوٹی پر موجود اہلکار بھی الرٹ ہو گیا اور دونوں ملزموں کو قابو کر لیا گیا جن میں سے ایک کی شناخت ناظم خان کانسٹیبل متعینہ ایچ آئی یو وارث خان سرکل اوردوسرے کی شناخت محمد اصغر پولیس ملازم متعینہ پکٹ تھری آرمی ہائوس ہوئی۔ دونوں کو تھانہ سول لائن پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ آصف خان کے مطابق دونوں کانسٹیبل سرکاری گاڑی میں پولیس لائن میں آئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان دونوں کالی بھیڑوں کو محکمہ پولیس سے فارغ کر دیا جاتا لیکن پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کوبچانے کیلئے میدان میں آگئی۔ پہلے تو ایف آئی آر ہی کمزور دی جس پر علاقہ مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کی سرزنش کی اور مزید یہ کہ سرکاری موٹر سائیکل کی برآمدگی اسی رات کی تھانہ رتہ امرال کے علاقہ میں ڈال دی گئی کہ جس رات ڈی آر کی ذاتی موٹرسائیکل چوری ہوئی اور ظاہر کیا گیا کہ سرکاری موٹرسائیکل کسی اور نے چوری کی جو اسے رتہ امرال کے ایریا میں چھوڑ گیا۔ اسی پر بس نہیں ہوئی کچھ دن بعد ڈی آر آصف خان کی پولیس لائن میں کھڑی کار کے چاروں ٹائر چوری کر لئے گئے۔ آصف خان نے بتایا کہ ملزمان انتہائی اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ ایک ملزم کے چار قریبی عزیز راولپنڈی پولیس میں ملازم ہیں اور انکی وجہ سے کیس خراب کیا گیا ہے۔ ملزموں کی جانب سے مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے کی آفر کی گئی کہ میں مقدمہ سے پیچھے ہوجاؤں لیکن میں نہ مانا، جس کے بعد پولیس لائن میں کھڑی میری گاڑی کے چاروں ٹائر اتار لئے گئے جس کی درخواست میں نے متعلقہ تفتشی کودے دی ہے لیکن تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر پولیس لائن میں یہ صورتحال ہے تو آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ دیگر مقامات پر کیا کچھ نہیں ہوتا۔