• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 مری روڈ راولپنڈی کے مریڑ چوک سے دائیں مڑیں تو کشمیر روڈ شروع ہوجاتا ہے ، مریڑ چوک سے کشمیر روڈ جاتے ہوئے تقریباً پانچسو گز کے فاصلے پر بائیں جانب ایک گلی مڑجاتی ہے اس گلی میں ایک حویلی نما عمارت ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کی ملکیت رہی یا ان کے مصرف میں رہی ہے بلکہ جس روز انہیں شہیدکیا گیا وہ اس حویلی سے تیار ہوکر جلسہ گاہ گئے تھے اور اس جلسہ گاہ کو ہم اب لیاقت باغ کے نام سے جانتے ہیں ، لیاقت علی خان کی حویلی کا ان کی شہادت کے بعد کیا مصرف رہا میں نہیں جانتا لیکن ان دنوں وہاں کچھ لو گو ں نے اس حویلی کو ایک ایسی بیٹھک میں تبدیل کردیا ہے جہاں شعراء، ادیب اور فنکار آکے بیٹھنے لگے ہیں، اور اس بیٹھک کا نام حرف کدہ رکھا گیا ہے آج سے کچھ دہائیاں قبل ہمارے ملک میں بہت سارے نامی گرامی شعراء ، ادیب اور فنکار تھے ، لیکن آج چند معروف ناموں کے علاوہ وہ بڑے بڑے نام نہیں ملتے جو لازوال شاعری کیا کرتے تھے ، خون کو گرمادینے والے قومی نغمے لکھتے تھے، دل میں اتر جانے والے گیت لکھا کرتے تھے ، وطن کی مٹی کی خوشبوؤں میں رچے بسے فوک کو پیش کرتے تھے ، ایسی ایسی دھنیں بنائی جاتی تھیں جن کی تانیں کانوں میں رس گھولتی تھیں، فلمی گانوں کی شکل میں ایسے شاہکار پیش کئے گئے جن کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے ، خوبصورت تحریریں، دلفریب افسانے ، ناولوں کی داستانیں، کہانیوں کے سسپنس اور محبت کی چاشنی لئے ہوئے اشعار، محبوب کی بے وفائی اور عمدہ خیال کی غزلیں آج کا قاری ان سب سے محروم نظر آتا ہے ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ایک وجہ ان بیٹھکوں ، چائے خانوں اور پبلک لائبریریوں کا خاتمہ ہے ، جہاں یہ اعلیٰ تخیل جنم لیتا تھا، دھنیں بنتی اور بکھیری جاتی تھیں، اشعار اور غزلوں کی بنت کاری کی جاتی تھی لیکن حرف کدہ کا قیام اس جانب ایک اہم قدم ہے ، ہوسکتا ہے کہ حرف کدہ میں معروف لوگ رونق افروز نہ ہوں لیکن نئے لکھنے والے ،شعر کہنے والے اور فن کی جوت جگانے کی خواہش رکھنے والے حرف کدہ نامی اس بیٹھک سے ضرور سیراب ہوںگے، حرف کدہ کے منتظیمین سے درخواست ہے کہ وہ اس بیٹھک کی حرمت کا ضرور خیال رکھیں اور یہاں کسی بھی ایسی ایکٹویٹی کی حوصلہ شکنی کریں جو حرف اور لفظ کے قتل کا باعث بنے۔بات لیاقت باغ اور حرف کدہ کی ہورہی ہے تو لیاقت باغ کے عقب میں لیاقت میموریل ہال کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں جو ان دنوں نیشنل آرٹس کالج کے پنڈی کیمپس کے پاس ہے یہ ہال بھٹو دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے چین کی مدد سے بنایا تھا ، جو تھیڑ کیلئے ایک بہترین سہولت تھی اور ا ین اے سی کے پاس جانے سے پہلے پی این سی اے کے پاس اس کا کنٹرول تھا، یہاں پر میوزیکل شوز بھی ہوتے تھے ، بچوں کیلئے پتلی تماشا بھی ہوتا تھا، ڈرامے بھی اسٹیج کئے جاتے تھے، غرضیکہ فن کی ہر ہر صنف یہاں پیش کی جاتی تھی یہاں اسکولوں ، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے بچے بھی آکر مختلف ایکٹیویٹیز کرتے یا ان سے لطف اندوز ہوتے تھے ، پنڈی کے وسط میں ہونے کی وجہ سے یہ ثقافتی تقاریب کا ایک بہترین مرکز تھا لیکن نیشنل آرٹس کالج کے پاس جانے کی وجہ نہ صرف اس کا استعمال تقریباً ختم ہوگیا ہے بلکہ مقامی فنکار ایک بہترین مرکز سے بھی محروم ہوچکا ہے ۔اس کی واپسی اوراسے دوبارہ ثقافتی تقاریب کا مرکز بنانے کیلئے گزشتہ دنوں مقامی فنکاروں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ہے ، مجھے بتایا گیا ہے کہ اس مظاہرہے میں سینکڑوں فنکاروں نے لیاقت باغ میں شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ہال فنکاروں کو دیا جائے تاکہ وہ یہاں پر اپنی ایکٹویٹی کرسکیں۔احتجا جی مظا ہرہ کر نے وا لو ں میں راولپنڈی اسلام آباد کے علا وہ اٹک ، چکوال، گوجرخان، جہلم کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے فنکار بھی شامل تھے یہ آواز بلند کررہے تھے کہ فنکاروں کا یہ نعر ہ ہے کہ لیاقت ہال ہمارا ہے ، ثقافت کے فروغ کیلئے، فن کی آبیاری کیلئے نئے اور مثبت خیالات کے جنم کیلئے لیاقت ہال، حرف کدہ، چائے خانوں اور مقامی لائبریریوں کو قائم اور آباد کرنے کی ضرورت ہے ، حکومت کو چاہیے ان کی سرپرستی کرے اور ایسے مراکز آباد کرنے میں ادیبوں ، شعراء اور فنکاروں کی مدد کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرے اور تالے لگانے ، قبضے کرنے اور ثقافتی مراکز کو بھو ت بنگلوں میں تبدیل ہونے سے بچائے کیونکہ ہماری ثقافت ہی ہمارا خوشنما چہرہ ہے۔

تازہ ترین