• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر صاحب جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوئےطلبہ کے ایک گروپ نےجو وہاں کسی سیمینار کے سلسلے میں آیا ہوا تھا گھیر لیا، اور وفاقی وزیر صاحب کے ساتھ سلفیاں بنانا شروع کردیں، سلفیاں بنانے کا سلسلہ کافی دیر جاری رہا۔ کچھ نوجوانوں نے میرے ساتھ بھی تصاویر بنوائیں، سلفیوں کا سلسلہ ختم ہوا تو ان طلبہ نے وفاقی وزیر صاحب سے کچھ تلخ و شیریں سوالات شروع کردیے اور یہ موقع تھا جب وفاقی وزیر صاحب نے وہاں سے جلد از جلد نکلنے کا فیصلہ کیا میں نے وفاقی وزیر صاحب سے پوچھا یہ جو ہم میں سلفی کلچر آگیاہے آپ اس سے تنگ نہیں آتے، وفاقی وزیر صاحب نے ایک قہقہہ لگایا اور کہنےلگے میں اس وقت بہت تنگ ہوتا ہوںجب کسی بھی ہجوم میں چاہے وہ سیاسی ہو ، مذہبی ہو یا اسی طرح طلبہ مو جو د ہوں اور کوئی بھی میرے ساتھ سلفی بنانے کی کوشش یا خواہش کا اظہار نہ کرے۔
اور پھر انہوںنے خود ہی قہقہہ لگایا کہ وہ بھی کوئی سیاستدان ہے یا وہ بھی کوئی آرٹسٹ ہے یا قومی کھلاڑی یا سلیبرٹی ہے جس کے ساتھ لوگ سلفی بنانے کی خواہش کا اظہار نہ کریں ، یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں پہنچ گئے ، ویٹر نے منسٹر صاحب کی وجہ سے ہمارا بڑا پرتپاک استقبال کیا ، منسٹر صاحب نے ویٹر سے پوچھا کہ تم مجھے جانتے ہو ؟ تو ویٹر نےبڑےادب سے جواب دیا جانب آپ کو کون نہیںجانتا لیکن ویٹر کےاگلے فقرےنےمنسٹر صاحب پر کچھ ناگواری کے اثرات چھوڑے۔ویٹر نے کہاکہ جناب ہمارے لیے ہوٹل میں آنے والے تمام کسٹمرز ہی قابل احترام ہوتے ہیں ۔میں نےبیٹھتے ہی منسٹر صاحب سے کہاکہ جناب یہ ہمارے ملک سے وی آئی پی کلچر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، منسٹر صاحب جو پانی کا گلاس اٹھا کر اس کا گھونٹ بھرنا ہی چاہتے تھے کہ گلاس واپس میزپر رکھتے ہوئےکہنےلگے کہ ہمارے ملک میں وی آئی پی کلچر ختم ہوگیا ہے اور اس کلچر کو ختم کرنےمیں ہماری حکومت نے اہم کردار ادا کیاہے میں منسٹر صاحب کے اس جواب پر تھوڑا سا حیران ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ منسٹر صاحب نے میرے اس سوال پر برا بھی منایاکہ شاید میں نےبراہ راست ان پر تنقید کی ہے ۔میں کچھ خاموش رہنےکے بعد بولا کہ منسٹر صاحب چند روز قبل ایک قومی کرکٹر کوصرف اس وجہ سے تھانے میں بند کردیا گیا کہ اس نے ایک اعلیٰ افسر کی گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کی جسارت کی تھی ، اسی طرح جب بھی کسی وزیر نے کسی شاہراہ سے گزرنا ہو تو ٹریفک سگنلز بند کردیے جاتے ہیں اور ساری ٹریفک پولیس اس کوشش میں ہوتی ہے کہ منسٹر صاحب کی گاڑی کو بغیر کسی رکاوٹ کے گزارا جائے، ائر پورٹس پر وزرا حتیٰ کہ ارکان پارلیمنٹ بھی بورڈنگ کارڈپہلےسے حا صل کر لیتےہیں اور پھر اپنی مرضی سے ائر پورٹ پہنچتے ہیں اور کئی مرتبہ ان کی تاخیر سے آمد کی وجہ سے فلائٹس تاخیر کا شکار ہوجاتی ہیں۔کرکٹ میچوں میں عام کرکٹ شائقین بیچارے سارا سارا دن ٹکٹس حاصل کرنےکیلئے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں یا ٹکٹس حاصل کرنے کےلیے مارے مارے پھر تے ہیں اور پھر اگر وہ ٹکٹس حاصل کر بھی لیں تو ان کے انکلوژر میں پانی اور صاف واش رومز کی سہولت نہیں ہوتی جبکہ اس کے مقابلے میں وی آئی پیز کےلیے خصوصی انکلوژر بنائے جاتے ہیں جہاں وہ نہ صرف میچ سے لطف اندواز ہوتےہیں بلکہ ان کےلیے چائے ، کافی اور ٹھنڈے مشروبات سے تواضع کی جاتی ہے اور میچ دیکھنے کے دعوت نامے ان کے گھروں میں پہنچائے جاتے ہیں جن میں ان کی فیملی کے ممبران کیلئے بھی دعوت نامے شامل ہوتے ہیں، وی وی آئی پی کے گزرنے کے اوقات میں روٹس لگا دیے جاتے ہیں اور ایک وی وی آئی پی کےلیے پچاس پچاس بڑی اور مہنگی سرکاری گاڑیاں ان کے کانوائے میں شامل ہوتی ہیں، بلکہ عدالتوںمیں پیش ہوتے وقت بھی یہی شاہانہ انداز اپنایا گیاہے اور ہم نے وی وی آئی پیز کی موومنٹ کے دوران دلخراش مثالیں دیکھی ہیں کہ مریض اسپتال نہیں پہنچ پاتے ،بچے والدین کی بانہوں میں دم توڑ دیتے ہیں غریب خواتین رکشوں میں بچوں کو جنم دے رہی ہوتی ہیں ، وی وی آئی پی کےپروٹوکول اور سیکورٹی پر مامور اہلکار مریضوں کی اکھڑی سانسیں دیکھ کربھی کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے ، سرکاری اسپتالوں میں وی آئی پی لوگوں کےلیے وی آئی پی رومز اور وارڈز بنائے گئے ہیںجبکہ جنرل وارڈز میں ایک ایک بیڈپر تین تین مریض لیٹے ہوتےہیں مریضوں کو داخلہ تک نہیں ملتا، حاملہ خواتین درد زہ سے تڑپ رہی ہوتی ہیں اور ڈاکٹرز ان کودیکھنے یا بیڈ دینے کے لیے راضی نہیں ہوتے ، یہ سب وی آئی پی کلچر ہی تو ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تفریق دیکھنے کو ملتی ہے میں بولے جارہا تھا اور منسٹر صاحب کے اندازسے لگتا تھا کہ میری کسی بات پر توجہ نہیں دے رہے تو میں بھی خاموش ہوگیا کہ منسٹر صاحب بھی سخت لہجے لیکن چہرےپر مسکراہٹ رکھتے ہوئےبولےجناب آپ ہم پر تو بہت تنقید کرتےہیں لیکن عمران خان یا حکومت سندھ کےپروٹوکول اور وئی آئی پی کلچر پر بات نہیں کرتے میں نے احترام میں جواب دیتے ہوئے کہا جناب میں سب کی بات کررہا ہوں مجھے حکومت سندھ یا عمران خان سے کچھ لینا دینا نہیں میں تو اس وی آئی پی کلچر کی بات کررہاہوں جو پورے ملک میں روا رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہوتےہیں منسٹر صاحب جو کچھ دیر پہلے یہ دعویٰ کررہےتھے کہ ہم نے وی آئی پی کلچر ختم کردیا ہے میری بات کے جواب میں بولے اگر آپ اس کو وی آئی پی کلچر کہتے ہیں تو یہ پاکستان سے کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔

تازہ ترین