• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری جعفر اقبال مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما ہیں، سابق و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے علاوہ متعدد مرتبہ صوبائی اور وفاقی وزیر رہنے الے جعفر اقبال گزشتہ دنوں اس الیکشن میں بھی چیف الیکشن کمشنر تھے جس میں میاں نوازشریف کو پارٹی صدر بنایا گیا۔ جعفر اقبال کے والد بزرگوار چوہدری محمد اقبال چیلیانوالہ طویل عرصے تک قومی سیاست کا حصہ رہے، اپنے قبیلے کے سردار رہے، اب یہ سرداری جعفر اقبال کے پاس ہے۔ اب بھی ان کے قبیلے کے کئی افراد اقتدار کا حصہ ہیں مثلاً مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار یوسف، وفاقی وزیر دانیال عزیز اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری کے علاوہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کا تعلق ان کے قبیلے سے ہے، چوہدری جعفر اقبال گجر کا قبیلہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے لہٰذا ان کی رائے ملک کے مختلف کونوں سے آنے والی آوازوں کے بعد بنتی ہے، خود جعفر اقبال کی اہلیہ پیپلز پارٹی کے حیدرآباد سے سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری اشرف کی صاحبزادی ہیں، بیگم عشرت اشرف خود بھی قومی اسمبلی کی رکن رہی ہیں، اس سیاسی خانوادے میں ذکاء اشرف کے علاوہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شفقت محمود بھی شامل ہیں، ہمارے جنگ کے کالم نگار اور معروف دانشور ڈاکٹر صفدر محمود، چوہدری جعفر اقبال کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ ان تمام تعلق داریوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آج میں ایک ایسے شخص کی رائے بیان کرنے والا ہوں جو ایک بڑے قبیلے کا سردار ہے، اس کے خاندان میں ہر طرف سیاست ہے اور وہ خود حکمران جماعت کا اہم ترین رہنما ہے۔ اس کی بیٹی اور بیٹا حالیہ اسمبلیوں کے رکن ہیں۔
مئی 2016ء میں جس وقت میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے پنجاب یونیورسٹی میں چوہدری جعفر اقبال کو قومی مسائل پر بات کرنے کیلئے مدعو کیا گیا، اس وقت وہ بطور سینیٹر وہاں آئے، انہوں نے ملکی مسائل اور ان کے حل پر سیر حاصل گفتگو کی، اس کا کچھ حصہ یہاں بیان کررہا ہوں، یہ گفتگو ایک ایسے سیاستدان کی ہے جس کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، یہ گفتگو کسی صحافی، دانشور یا کسی سابق فوجی جرنیل کی نہیں ہے۔ مئی 2016ء میں جعفر اقبال نے پنجاب یونیورسٹی میں کہا کہ ’’.... ہم ایٹمی قوت ہیں، دنیا ہماری اس قوت سے پریشان ہے، امریکہ، برطانیہ اور بھارت سمیت کئی ممالک بہت زیادہ پریشان ہیں کہ کہیں پندرہ بیس سالوں میں پاکستان کا ایٹمی نظام بہت آگے نہ نکل جائے، چونکہ ہم ایٹمی شعبے میں بڑی مہارت سے آگے جارہے ہیں لیکن بحیثیت قوم بھی ہمیں ایک قوم بننا ہوگا، ہم بٹے ہوئے ہیں پنجابی، سرائیکی، سندھی، مہاجر، پٹھان، بلوچ۔ ہم سب کو اس تقسیم سے نکل کر خود کو پاکستانی قوم بننا ہوگا، ہمیں بطور پاکستانی آگے بڑھنا ہوگا، جہاں ہمیں پاکستانی بن کر آگے بڑھنا ہوگا وہیں ہمیں نظام حکومت بھی بدلنا ہوگا، قائداعظم محمد علی جناح نے جولائی 1947ء میں فرمایا تھا کہ جو پاکستان بننے جارہا ہے اس میں برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا، آج قائداعظم کی بات سچ ثابت ہوگئی ہے 70سال کے بعد ثابت ہوگیا ہے کہ قائداعظم کی بات درست تھی، ہمیں صدارتی نظام چاہئے، ہمارے بلدیاتی ادارے بھی مضبوط نظر آئیں گے، ہمیں چھوٹے انتظامی یونٹس کی ضرورت ہے، آج اگر پاکستان میں 23ڈویژن ہیں تو ہمیں 23صوبے بنا دینے چاہئیں، آپ افغانستان میں صوبے دیکھیں، آپ ہندوستان میں صوبے دیکھیں، اسی طرح دیگر ممالک میں صوبوں کی تعداد دیکھیں، میں یہاں ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے اقرار کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر حکومت ترقیاتی منصوبوں کی طرف تو توجہ دیتی ہے، خاص طور پر ہماری یعنی مسلم لیگ ن کی حکومت ترقی اور منصوبوں کی طرف بہت توجہ دیتی ہے، سڑکیں، موٹر وے اور پل بنانے کی طرف تو حکومت متوجہ رہتی ہے، مگر ہماری سیاسی جماعتیں گڈ گورننس یعنی عمدہ طرز حکمرانی کی طرف نہیں جاتیں، اگر ہم بنیادی چار چیزیں کر لیں تو ہم اچھی حکمرانی یعنی گڈگورننس کی طرف چلے جائیں گے وہ چار باتیں جن پر عمل کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہیں نمبر ایک، کیا ہم تعلیم کے میدان میں سب لوگوں کو ایک طرح کی سہولت دے رہیں ہیں، کیا تعلیمی میدان میں عوام کیلئے یکساں مواقع ہیں، اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ ہمارے ہاں پرائیویٹ اور سرکاری تعلیم میں بہت فرق ہے، آپ کے امیر اور غریب میں بہت فرق ہے، وفاق اور صوبوں میں جو تعلیمی نظام ہے اس میں بہت فرق ہے، نمبر دو، کیا ہم صحت کا نظام ٹھیک دے رہے ہیں یقیناً اس کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ ہمارے ہاں سب لوگوں کے لئے صحت کی سہولتیں یکساں نہیں ہیں، نمبر تین۔ کیا ہمارے ہاں سب لوگوں کو انصاف مل رہا ہے کیا میرٹ میں کوئی انصاف ہے، ہم لوگ خود سارا دن سفارشیں کرتے رہتے ہیں، خود چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی یو) میں پچھلے دنوں کہا کہ ایک مقدمہ میرے سامنے آیا جو 54سال پرانا ہے، ہمارے ہاں ایسا نظام عدل ہونا چاہئے کہ آپ کا جج آپ میں پھرتا بھی ہو اور انصاف بھی ہو، کیا پرانے زمانوں میں قاضی چھپ کر رہتے تھے، نہیں، بالکل نہیں، ہمیں بھی چاہئے کہ ہمارے ہاں ایسا نظام ہو کہ ہمارے جج صاحبان شادیوں کی تقاریب میں شریک ہوں، دیگر خاندانی تقاریب کے علاوہ معاشرے کا حصہ نظر آئیں اور انصاف بھی ہوتا رہے، جب وہ کرسی انصاف پر بیٹھے تو اس کے سامنے اس کا بھائی آئے یا بیٹا، وہ انصاف کرے، نمبر چار۔ کیا آپ کا پولیس سسٹم انصاف دے رہا ہے، آپ کا پولیس سسٹم تو وصولی کا اڈا بنا ہوا ہے، پیسے کے بغیر ایف آئی آرنہیں کٹتی، ظلم کا نظام ہے، کیا یہ ظلم کا نظام ختم نہیں ہونا چاہئے، آج جب اللہ کے فضل و کرم سے ہم دہشت گردی کو ختم کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، تقریباً 90فیصد دہشت گردی ختم ہو چکی ہے، اس میں افواج پاکستان کا کردار مثالی ہے، دہشت گردی ختم ہو جائے گی آپ کا نظام حکومت بھی بدل جائے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تک کرپشن ختم نہیں ہوگی یہ ملک ترقی نہیں کرسکے گا، کرپشن کینسر کی صورت پھیل چکی ہے، اب تو دن دیہاڑے ڈاکے مارے جارہے ہیں اور پروا ہی نہیں کی جاتی، سمجھا ہی نہیں جاتا کہ یہ عیب ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے، ہمیں اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، ہمیں یہ نظام بدلنا چاہئے، ہماری زیادہ زندگی تو گزر گئی، ہمیں اگلی نسل کے لئے ایک اچھا نظام ، اچھے پاکستان کیلئے دینا چاہئے، پاکستان زندہ باد....‘‘
چوہدری جعفر اقبال کی اس گفتگو کو سنجیدہ لینا چاہئے، ہمیں اس فرسودہ نظام سے جان چھڑوا لینی چاہئے ہمیں صدارتی نظام کی طرف جانا چاہئے، باقی رہا موجودہ نظام، تو اس میں تو مریم نواز کہہ رہیں ہیں کہ ’’... اتنے سادہ آپ بھی نہیں اور اتنی سادہ میں بھی نہیں....‘‘ مریم نواز کے ایک جملے میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے، ڈھونڈنے والے ڈھونڈ سکتے ہیں کہ؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتےبھی نہیں

تازہ ترین