• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افراد اور اقوام کی زندگی میں ایسے فیصلہ کن لمحات بھی آتے ہیںجو بڑے دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لمحات میں کئے گئے اچھے اور بُرے فیصلوں کے اثرات بعض اوقات آنے والی نسلوں تک کو متاثر کرتے ہیں۔ جس طرح اچھے فیصلے امن ، خوشحالی اور سکون کا باعث بنتے ہیں اسی طرح بعض بُرے فیصلے قتل و غارت گری ، بدامنی ، بے سکونی اور پسماندگی کو جنم دیتے ہیں۔ جنہیں عوام کو برسوں تک بھگتنا پڑتا ہے اور پاکستان کی افغان جنگ میں شمولیت ایک ایسا ہی غلط اور بُرا فیصلہ تھا جسکی قیمت پاکستانی افواج اور عوام آج تک ادا کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کا اندرونی اور بیرونی امیج یکسر بدل گیا۔ ایک پُر امن ملک دہشت گرد ی ، مذہبی انتہا پسندی اور منشیات کے حوالے سے پہچانا جانے لگا۔ آج سے تقریباََ 40سال پہلے جب ایک فوجی ڈکٹیٹر نے محض اپنے اقتدار کی خاطر دو عالمی طاقتوں کی سیاسی بالادستی کی جنگ کو مذہبی جنگ اور جہاد قرار دے کر اپنے ملک کو بیرونی طاقتوں کا میدانِ جنگ بنا دیا تھا تو اس وقت بھی کئی حقیقت پسند دانشوروں نے اسے جہاد کی بجائے ’’فساد‘‘ کہا تھا۔ لیکن اس وقت امریکی ڈالروں کی بارش میں نہانے والے حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے جن میں آج کی کئی اہم مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ انہیں کافر اور غدّار کے القابات سے نوازا تھا۔ میں نے بھی اس زمانے میں ایک نظم ’’افغانیوں کے قاتلو!‘‘ لکھی تھی۔ جس میں حاکمانِ وقت سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ امریکی سامراج جس نے فلسطین ، قبرص، کشمیر غرض ہر جگہ مسلمانوں کے قاتلوں کی مدد کی تھی اور جو خود بھی ویتنام میں برسوں تک نہتے عوام کا خون بہاتا رہا ہے ۔ اچانک کس طرح مسلمانوں کا ہمدرد ہوگیا ہے۔ اگر ہم آج عیسائی ملک امریکہ اور اس کے حلیف ممالک جو تمام کے تمام عیسائی ہیں ان کے ساتھ ملکر مذہبی جنگ یا جہاد کر رہے ہیں تو پھر عیسائیوں کے ساتھ ’’صلیبی جنگیں‘‘ کس زمرے میں آتی ہیں؟ لیکن اپنے ذاتی اور شخصی مفادات کے حصول میں ان حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے اندھا دھند قومی مفادات کو قربان کردیا اور اپنے اوپر ایک ایسی جنگ مسلط کرلی ، جو ہماری جنگ تھی ہی نہیں لیکن بد قسمتی سے ہم آج تک اُسی جنگ کے ہولناک نتائج بھگت رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں موجودہ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں یہی موقف اپنایا ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی ۔ افسوس کی بات تو یہی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کو ملّوث کرنے والا فوجی ڈکٹیٹر کسی وقت میں موجودہ حکمرانوں کا لیڈر تھا۔ اور موجودہ مسلم لیگ ، جماعتِ اسلامی ، جمیعت ِ علمائے اسلام اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس غیر ملکی فساد کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر عملی طور پر اس میں شریک رہی ہیں۔ ان پالیسی سازوں نے ایک لمحے کو بھی یہ نہیں سوچا کہ جو گڑھا ہم دوسروں کے لئے کھود رہے ہیں ۔ وہ ہمارے لئے بھی موت کی کھائی ثابت ہو سکتا ہے۔
افغان جنگ میں فتح کا تاج تو امریکہ کے سر سجا ۔ لیکن پاکستان کے حصّے میں صرف تباہی اور بربادی آئی اس جنگ کے دوران وقتی طور پر امریکی امداد نے فوجی اور مذہبی اشرافیہ کو تو مالدار کردیا لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری نے پاکستان کے 70ہزار معصوم شہریوں اور تقریباََ دس ہزار فوجی جوانوں کو ان کی زندگی سے محروم کردیا۔ پاکستانی معیشت کو اربوں کا نقصان ہوا اور بیرونِ ملک پاکستان کا امیج بُری طرح مجروح ہوگیا۔ اور دنیا ہمیں دہشت گرد ملک سمجھنے لگی۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ جس امریکہ اور افغانستان کی خاطر ہم نے اپنی سلامتی دائو پر لگا ئی اور اپنے ملک کو لہو میں رنگ دیا وہ بھی پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے میں پیش پیش ہیں۔ دنیا میں جنگیں ہمیشہ اپنے اپنے قومی مفادات کےلئے لڑی جاتی ہیں اور جہاں ضرورت ہو مذہب کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ورنہ جنگ ِ عظیم اوّل اور دوم میں متحارب ملکوں کی اکثریت عیسائی مذہب سے تعلّق رکھتی تھی۔ ایران اور عراق تک کی جنگیں مسلمانوں کے درمیان ہوئیں۔ اور مہا بھارت کی جنگ میں تو ایک ہی خاندان کے کزن ایک دوسرے کے ساتھ برسوں تک جنگ و جدل میںمصروف رہے۔ امریکی بالادستی کی جنگ کو ’’جہاد‘‘ کا نام دے کر جنرل ضیانے مذہبی منافرت اور دہشت گردی کا وہ جن بوتل سے نکال دیا جو اب کسی صورت ہمارے سروں سے ٹلتا نظر نہیں آ رہا۔ اگرچہ سوویت یونین غیر مذہبی ملک تھا مگر اس میں کئی مسلم ریاستیں بھی شامل تھیں۔ جبکہ امریکہ تو مکمل طور پر غیر مسلم تھا۔ ملکی مفاد کا تقاضا تو یہ تھا کہ پاکستان اس جنگ میں غیر جانبدار رہتا کیونکہ سوویت یونین کی جگہ امریکی سامراج کی بالادستی کسی طرح بھی نہ ہمارے مفاد میں تھی نہ ہی دیگر مسلم ممالک کے مفاد میں تھی۔ سوویت یونین کی موجودگی میں دنیا میں دو طاقتی نظام رائج تھا بہت سے مسلم اور یورپی ممالک سوویت یونین بلاک سے وابستہ تھے جس کی وجہ سے دنیا میں طاقت کا توازن موجود تھا۔
لیکن سوویت یونین کے زوال کی وجہ سے پوری دنیا امریکی سامراج کے قبضے میں آگئی ۔ جس نے اپنے نیوورلڈ آرڈر کے ذریعے کویت سے لیکر عراق تک وسیع پیمانے پر تباہی مچادی ۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور مسلم ممالک کو ہوا۔ جو کچھ ہی سالوں میں قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا شکار ہو کر بتاہ ہوگئے۔ زندہ قومیں اپنے ماضی اور غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے کی بجائے پاکستان کو ایک مکمل غیر جانبدار ملک بنائیں ۔ آج پاکستان کے چین کے علاوہ اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ تعلّقات اچھے نہیں۔ چین بھی دہشت گردی کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ اس لئے ہمیں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مذہب کے نام پر سیاست کرنے پر پابندی عائد کرنا چاہئے کیونکہ دنیا کی تاریخ اور ہمارے اپنے سابقہ تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ مذہبی سیاست سے صرف فرقہ وارانہ تصادم اور کشیدگی جنم لیتی ہے۔ اس سے نہ صرف مذہبی تقدّس پامال ہوتا ہے بلکہ سیاست میں بھی پختگی نہیں آتی اور قوم اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ دنیا نے یہ حقیقت جان لی جسکی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ہم سے صدیوں آگے نکل گئے ہیں اور ہم ابھی تک فروعی اختلافات کا شکار ہیں۔ ہماری پسماندگی ہمارے عوام کی وجہ سے نہیں اُن خود غرض شخصی حکمرانوں کی وجہ سے ہے جن کے کسی لمحے میں کئے گئے غلط فیصلوں کی سزا آئندہ نسلیں بھی بھگت رہی ہیں کسی نے سچ کہا ہے ۔
لمحوں نے خطا کی تھی
صدیوں نے سزا پائی

تازہ ترین