• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایچ ای سی کے چیئرمین جناب مختار احمد کے بقول تو سب ہرا ہی ہرا ہے۔ انہوں نے چند روز قبل ہم کچھ لوگوں سے خطاب میں بتایا کہ جہاں کچھ عرصہ قبل تک پی ایچ ڈیزکے لکھے ہوئے مقالات چند سو تک محدود تھے وہاں ان کی تعداد اب بارہ ہزار سے زیادہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ملک میں اب 300سے زائد اچھی یونیورسٹیاں ہیں لیکن جناب من یہ اعداد و شمار ایک طرف اور ملک میں بڑھتی تعلیمی ابتری ایک طرف۔ یہ کالم آپ کی توجہ چاہتا ہے۔
کیا پاکستان میں تعلیم حد درجہ تنزل کا شکار ہے؟ کم از کم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ان جیسے بے شمار مفکرین تو یہی سمجھتے ہیں کیا ہم اس سے پہلوتہی کر رہے ہیں اور خودساختہ دانشور بنے بیٹھے ہیں؟ میرے خیال میںاس کاجواب بھی یہی ہے کہ یقیناً ایسا ہی ہے۔ کیا نقل کرکے بڑی بڑی پاکستانی ڈگریاں حاصل کرنےوالے اپنے جیسے ڈاکٹرز پیدا کرکے اس زوال میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی بالکل یہی ہے کہ ایساہی ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں گراوٹ کے باعث پیدا ہونے والے ایم فل اور پی ایچ ڈی جب ان ہی درس گاہوں میں استاد کے درجے پرپہنچ جاتے ہیں تو خود سے بھی زیادہ نالائق شاگرد پیدا کرتےہیں۔ میں نے اپنے چند ہفتے قبل چھپنے والے ایک کالم میں حساس کام کی ڈگری حاصل کرنے والے چند ایم فل حضرات کاذکر کیا تھا اور پھر ڈیپارٹمنٹ میں موجوداساتذہ کی نالائقی کے بارے خبردار کیاتھا۔ میراخیال تھا کہ اس حوالے سے کچھ ہل جل ہوگی مگر افسوس کچھ بھی نہیں ہوا۔ اعلیٰ حکام کو میٹرو ٹرین بنانے ایسے ناکام منصوبوں سے کچھ فرصت ملے تووہ تعلیم کی ابتر صورتحال کے حوالےسے کچھ غور کریں۔
اس وقت میر ےسامنے دورپورٹس ہیں ایک ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی تحریر کردہ اور دوسری برطانیہ کے معروف ادارے کیو ایس کی ترتیب دی ہوئی۔ آیئے پہلے ذرا بات کیو ایس کی رپورٹ کے حوالے سے کرلیں۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں وفاقی ایچ ای سی نے جامعات کی درجہ بندی کی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی کو پہلے پنجاب یونیورسٹی کو دوسرے اور نسٹ کو تیسرے درجے کے لئے منتخب کیا تھا۔ اب ظاہر ہے اس درجہ بندی کرنےمیں ان اداروں سے ہونے والی تحقیق اور اس کے پی ایچ ڈی کے مقالات کو معیار مقرر کیا جاتاہے۔ اب سلسلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں نےایک تووفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اس رینکنگ کو مسترد کردیا بلکہ یہ بھی خبردار کیا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم مسلسل تنزلی کا شکارہے۔ بین الاقوامی سطح پر جامعات کی درجہ بندی کرنےوالے معروف اداروں کیو ایس رینکنگ اور ٹائمز ہائر ایجوکیشن ایسے اداروں کی درجہ بندی کے مطابق لمز کو پہلے درجے پر رکھا گیاہے۔ جامعہ پنجاب، قائداعظم یونیورسٹی اور نسٹ جیسے اداروں کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ اس درجہ بندی سے جہاں ایک بات ہمارے سامنے یہ آئی ہے کہ پاکستان کی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی درجہ بندی کس قدر غلط ہے وہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ پنجاب، قائداعظم یونیورسٹی اور نسٹ جیسے ادارے کس درجہ زوال کاشکار ہیں۔
اس درجہ بندی کے حوالےسے ماہرین تعلیم نےیہ سوال اٹھایا ہے کہ ایچ ای سی جو کہ ایک فنڈنگ ایجنسی ہے اسے ازخود جامعات کی درجہ بندی نہیں کرنی چاہئے۔ ان کی درجہ بندی کو غلط ثابت کرنے میں جو بین الاقوامی ادارے کام کررہے ہیں وہ معروف ہیں اور ان کی درجہ بندی پرسوال نہیںاٹھایا جاسکتا۔ ایچ ای سی کی اس طرح کی غلط درجہ بندی کرنے اور پھر بڑے اداروں کے پروفیسروںاور ریسرچ سکالرزکے چوری شدہ اور اکثر غلط اعدادو شمار کے مطابق ترتیب دیئے گئے مقالات کو نہ پکڑاجانا دنیا بھر میں پاکستان کے لئے جگ ہنسائی کا سبب بن رہاہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسے لوگ مسلسل توجہ دلارہے ہیں لیکن پھر وزیر تعلیم عمومی طور پر ایسے حضرات بنتے ہیں جنہیں بقول استاد ایسے زیرتعلیم کہنا چاہئے جن کے ساتھ ووٹ کا ’’و‘‘ لگا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نےاپنے ایک کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والے آرٹیکل میں اپنی گزارشات کو اپنی اپیل کے ساتھ شائع کیا ہے کہ براہ کرم بہت پی ایچ ڈی ہوگئے اب معاف کردیں۔ وہ امریکہ میں پروفیسر فری مین ڈالی سن کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کا یہ معروف فزکس کا استاد جواب 90برس کا ہو گیا ہے، اس نے پی ایچ ڈی نہیں کی لیکن اس کی ریسرچ کو دنیا بھر کے فزکس کے استاداور ریسرچرز رہنمائی کے لئے دیکھتے ہیں۔ فری مین جیسے استاد اپنی اس ریسرچ کی بدولت تاریخ بنا رہے ہیں۔ اس نے ساری زندگی لگا کر صرف 50کے قریب مقالات شائع کئے ہیں لیکن اس کے یہ مقالات اپنی شاندار ریسرچ کی بدولت دنیا بھر کی اعلیٰ جامعات میں پڑھائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ چونکہ اب سائنس کے میدان میں کسی یونیورسٹی کا پروفیسر اورریسرچ سنٹر میں اعلیٰ عہدیدار ہونے کےلئے پی ایچ ڈی کی شرط لگا دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں پر بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی بنائیں اسی لئے تو یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی بنانے کی مشینیں بن گئی ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا۔اس حوالے سے معیار کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ پروفیسر ہود بھائی کے بقول اگر پروفیسر فری مین کو پاکستان میں کسی جامعہ میں نوکری کی درخواست دینی پڑے تو وہ پروفیسر نہیں بن پائے گا کیونکہ اس کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں ہے لیکن گھٹیا معیارات کے لکھے ہوئے سینکڑوں جعلی مقالات کی بدولت پی ایچ ڈی حضرات اعلیٰ ترین عہدوں تک جاپہنچتے ہیں۔ ان لوگوں کے مقالات اکثر اوقات نیٹ سے چوری کئے ہوئے ہوتے ہیں جن کو انہیں چیک کرنے والے حضرات بغیر چیک کئے چھاپے چلے جارہے ہیں اور جب یہ پکڑے جاتےہیں تو یا تو ملک سے ایسے فرار ہوتے ہیں جیسے COMSATS کے وائس چانسلر اپنے مقالات کے جعلی ثابت ہونے پر بھاگے تھے یا پھر اکثر یہ پکڑے ہی نہیں جاتے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسے جعلی پروفیسروں اور ریسرچرز نے پاکستان میں اس کو قدر بنا دیا تو آنے والی نسلیں صرف اورصرف چور پیدا کر رہی ہوں گی جو ذہنی طور پر انتہائی پست ہوں گے۔ اس طرح کی تعلیم کے ساتھ آپ بین الاقوامی معیارات کا کیسے مقابلہ کریں گے؟

تازہ ترین